’افسوس، انیسہ رسولی سپریم کورٹ کی رکن نہیں بن سکتیں‘
8 جولائی 2015افغان صدر اشرف غنی نے افغان جج خواتین کی ایسوسی ایشن کی سربراہ اور نوعمر ملزمان کی عدالت کی ایک جج انیسہ رسولی کو سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ کے لیے نامزد کیا تھا، جس پر کچھ قدامت سپند اسلامی حلقوں کی جانب سے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا۔
انیسہ رسولی کی اس عہدے پر نامزدگی ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی نامزدگی تھی تاہم اس نامزدگی کے لیے پارلیمان کی جانب سے منظوری کو ضروری قرار دیا گیا تھا۔
خفیہ رائے شماری کے بعد پارلیمان کے نائب اسپیکر عبدالظاہر قدیر نے عوامی نمائندوں کے اجلاس کو بتایا:’’بدقسمتی سے انیسہ رسولی سپریم کورٹ کی رکن بننے کے لیے اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کر سکیں۔ ہم صدر سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ کوئی اور امیدوار نامزد کریں۔‘‘
رسولی کو 193 میں سے 97 ووٹ درکار تھے تاہم اُنہیں محض 88 عوامی نمائندوں کی تائید و حمایت حاصل ہو سکی۔ اس کے برعکس اراکینِ پارلیمان نے سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ کے لیے ایک اور مرد جج کے ساتھ ساتھ افغانستان کے مرکزی بینک کے گورنر کے لیے تجویز کردہ نام کی بھی منظوری دے دی۔
ایک خاتون رکنِ پارلیمان شکریہ بارکزئی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا، ’آج جو کچھ ہوا ہے، یہ بہت تباہ کن ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ صدر اس ناکامی کا ازالہ کرنے کے لیے پھر کسی خاتون کو ہی اس عہدے کے لیے نامزد کریں گے‘۔
اشرف غنی اور اُن کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے گزشتہ سال ستمبر میں ملک میں کاروبارِ حکومت سنبھالا تھا اور تب سے اُن کی کوشش ہے کہ وہ ملک میں خواتین کو ترقی دیتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز کریں۔ آئین کی رُو سے سپریم کورٹ کے ججوں کے عہدے کی مدت دَس سال ہوا کرتی ہے۔
اس سال اپریل میں پارلیمانی اراکین نے کابینہ کے مختلف عہدوں کے لیے صدر اشرف غنی کی طرف سے تجویز کردہ ناموں کی منظوری دے دی تھی۔ کابینہ کے ان ارکان میں چار خواتین بھی شامل تھیں۔ صدر غنی نے دو صوبوں غور اور دائی کنڈی میں خواتین کو گورنر کے عہدے بھی دیے ہیں اور اس اقدام کو حقوقِ نسواں کے علمبردار حلقوں کی جانب سے بے حد سراہا بھی جا رہا ہے۔ صدر نے اپنے وزراء پر یہ بھی زور دیا ہے کہ وہ خواتین کو اپنے نائب وزراء مقرر کریں۔
دوسری طرف اس قدامت پسند ملک کے علماء ان تمام اقدامات پر سخت غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی ممکنہ تقرری کے خلاف گزشتہ مہینے علماء کے ایک گروپ نے کابل میں احتجاج کیا تھا۔
قدامت پسند طالبان کے دورِ حکومت میں 1996ء سے لے کر 2001ء تک خواتین کو کسی محرم مرد کی ہمراہی کے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی اور اُنہیں تعلیم جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا تھا۔