افغانستان:بارہ برس سے زیادہ عمر کی لڑکیوں پر گانے کی پابندی
11 مارچ 2021
افغانستان کی حکومت نے مبینہ طور پر ایک فرمان جاری کر کے کہا ہے کہ لڑکیوں کو صرف خواتین کی موجودگی والی تقریبات میں ہی گانے کی اجازت ہوگی۔
اشتہار
افغانستان کی حکومت نے مبینہ طور پر ایک فرمان جاری کر کے کہا ہے کہ لڑکیوں کو صرف خواتین کی موجودگی والی تقریبات میں ہی گانے کی اجازت ہوگی۔ اس پابندی کی سوشل میڈیا پر سخت مخالفت ہو رہی ہے اور بعض افراد اسے طالبان کی پالیسیوں کے عین مطابق قرار دے رہے ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق اس فیصلے کے بعد مرد ٹیچروں کو اسکول میں پڑھنے والی لڑکیوں کو گانے کی تربیت دینے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
یہ خبر ایسے وقت آئی ہے جب یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے جاری مذاکرات کے نتیجے میں اقتدار پر ایک بار پھر طالبان کا کنٹرول ہو سکتا ہے۔
کابل سے نشر ہونے والے ایریانا نیوز کی طرف سے مذکورہ فیصلے کے حوالے سے ایک خط کی نقل ٹوئٹر پر جاری کی گئی ہے جس کے مطابق بارہ بر س سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو صرف ایسی تقریبات میں گانے کی اجازت ہوگی جہاں ”صرف اور صرف خواتین موجود ہوں۔“
جرمنی کی خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق وزارت تعلیم کی ایک ترجمان نجیبہ ارائین نے اس خط کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کا اطلاق تمام صوبوں پر ہوگا۔ نجیبہ ارائین کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ طلبہ اور سر پرستوں کے مشورے کے بعد کیا گیا ہے۔
کابل کے ایک میڈیا ادارے ناؤ نیوز کے مطابق گانا سکھانے والے مرد ٹیچروں کو اسکول کی طالبات کو گانا سکھانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسکول کے پرنسپل اس پابندی کو نافذ کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔
’یہ اچھی بات نہیں ہے‘
اس فیصلے کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سخت غصے اور ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لوگ حکومت کے اس فیصلے کا موازنہ طالبان کے نظریات سے کر رہے ہیں۔
بعض ٹوئٹر صارفین نے حکومت کے فیصلے پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے پرانی تصویریں اور ویڈیو شیئر کی ہیں جن میں نو عمر لڑکیاں رقص کرتی اور گاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.
تصویر: Getty Images/AFP
7 تصاویر1 | 7
صحافی روچی کمار نے گاتی ہوئی لڑکیوں کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا، ”اگر انہیں قدروں کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی جو طالبان نے کی تھیں تو یہ جمہوریہ کے لیے اچھی بات نہیں ہوگی۔“
افغانستان کی وزیر تعلیم رنگینہ حمیدی کو خواتین کے حقوق کی علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ ایک ٹوئٹر صارف نے اس پس منظر میں لکھا ”
”میں نے ایک بار پڑھا تا کہ آپ افغان خواتین کی آواز بلند کرنے میں آگے آگے رہی ہیں۔ لیکن مجھے نہیں معلوم آپ اپنی آواز کو نو عمر افغان لڑکیوں کی آواز بند کرنے کے لیے استعمال کریں گی۔ ہم جاننا چاہیں گے کہ اس کے پیچھے آپ کی منطق کیا ہے۔ مقصد کیا ہے؟“
دوسری طرف بعض افراد نے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔ ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ سر پرستوں نے بچیوں کو ہراساں کیے جانے کی شکایت کی تھی اور اپنے بچوں کے تحفظ کی اپیل کی تھی۔
تاہم فیصلے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو گانے پر پابندی عائد کردیے جانے سے انہیں ہراساں کرنے کا سلسلہ ختم نہیں ہو جائے گا۔
ج ا/ ص ز (فرح بہجت)
کابل کا منفرد فیشن شو
افغان دارالحکومت میں سخت حفاظتی انتظامات کے سائے میں ایک خصوصی فیش شو کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں تقریباً دو درجن سے زائد نوجوان ماڈلز نے شرکت کی۔ اسے ایک منفرد تقریب قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul
سخت حفاظتی انتظامات
افغان دارالحکومت کابل میں منعقد کیے گئے فیشن شو میں دو درجن ماڈلز شریک ہوئے۔ اِس نجی تقریب کا اہتمام خصوصی سکیورٹی کے سائے میں کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul
روایتی لباس
اس تقریب میں شریک ماڈلز نے روایتی افغان ملبوسات پہن کر کیٹ واک کی۔ ان ملبوسات کا تعلق مختلف علاقوں سے کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
چھ خواتین ماڈلز
افغان ملبوسات کو پہن کر کیٹ واک کرنے والوں میں چھ خواتین بھی شامل تھیں۔ اس فیشن شو میں مغربی پہناووں کو کوئی جگہ نہیں دی گئی تھی۔ تمام ملبوسات مختلف افغان علاقوں سے منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
انتظام کیوں مشکل تھا؟
افغان معاشرہ قدامت پسند ہے اور فیشن شوز جیسی تقریبات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی باعث کابل فیشن شو کے لیے سخت سکیورٹی رکھی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sadeq
پانچ برسوں قبل کا فیشن شو
جولائی سن 2012 میں بھی ایک فیشن شو منعقد کیا گیا تھا۔ اُس فشن شو میں بھی نوجوان خواتین اور حضرات ماڈلز نے افغان ثقایت کے رنگ پیش کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Kyodo
خوش رنگ کیٹ واک
فیشن شو میں تقریباً تمام لباس بھاری افغان کشیدہ کاری کے حامل تھے اور خواتین نے زرق برق جواہرات کے زیورات کو بھی پہن رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sadeq
ثقافت کی مقبولیت
کابل فیشن شو کے ایک منتظم کا خیال ہے کہ افغانستان کے منفرد کلچر کی مقبولیت کے لیے ایسی تقریبات ازحد اہم ہیں اور ان کی وجہ سے یہ ثقافت عالمی سطح پر بھی مقبول ہو سکے گی۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
دھمکیاں اور ماڈلز
فیشن شو کی پلاننگ کرنے والے ایک ماڈل کو متعدد مرتبہ دھمکیاں بھی دی گئیں۔ منتظمین کے مطابق یہ دھمکی آمیز ٹیلی فون کالز افغان طالبان اور دوسرے کٹر حلقوں کی جانب سے دی گئی تھیں۔