افغانستان:ہسپتال پر خودکش حملے میں 38 افراد ہلاک
25 جون 2011لوگر میں مقامی انتظامیہ کے ترجمان دین محمد درویش کے بقول بارود سے بھری گاڑی میں سوار حملہ آور نے ہسپتال کے احاطے میں گاڑی داخل کرکے دھماکہ کیا۔ ان کے مطابق مارے جانے والے افراد میں ہسپتال کا عملہ، مریض اور ان سے ملنے کے لیے آنے والے لوگ شامل ہیں۔ حملے کے سبب ایک سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
فوری طور پر کسی نے اس دہشت گردی کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ طالبان کے ایک ترجمان کے مطابق وہ اس حملے کی مذمت کرتے ہیں اور یہ انہیں بدنام کرنے کی سازش ہے۔ افغانستان میں صحت عامہ کی وزارت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق، ’’ دل دہلا دینے والے اس واقعے میں ہسپتال کے عملے، بچوں اور خواتین کے بشمول 60 شہری شہید ہوگئے ہیں۔‘‘ بعد میں وزارت کی جانب سے کہا گیا کہ اوائل میں افراتفری کے سبب ہلاکتوں کی درست تعداد معلوم نہیں ہوسکی تھی۔
صوبہ لوگر افغانستان کے دارالحکومت کابل سے 79 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ دین محمد درویش کے مطابق فی الحال یہ واضح نہیں کہ دہشت گردوں کا مرکزی ہدف کون تھا بہرحال یہ واضح ہے کہ عزرہ ضلع میں واقع ہسپتال کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔
لوگر کی صوبائی کونسل کے سربراہ عبد الولی وکیل نے بھی مارے جانے والوں کی تعداد کی تصدیق کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زخمیوں کوبہتر علاج معالجے کے لیے دوسرے شہروں تک لے جانے کی غرض سے غیر ملکی فوج سے رابطہ کیا گیا ہے۔ دریں اثنا افغانستان میں متعین سلامتی کی بین الاقوامی فورس ISAF نے مشرقی افغانستان میں اپنے ایک فوجی کے مارے جانے کی تصدیق کی ہے۔
غیر ملکی افواج اور طالبان عسکریت پسندوں کے مابین لگ بھگ دس سال سے جاری مسلح کشمکش کے دوان سب سے زیادہ نقصان افغان عوام کا ہوا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اقوام متحدہ کے حوالے سے بتایا کہ محض گزشتہ برس 2777 شہری بد امنی کے سبب اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رواں برس بھی خاصا خونریز رہا ہے۔ گزشتہ روز ہی ملک کے شمالی صوبے کندوز میں ایک سائیکل میں نصب بم پھٹنے سے دس افراد ہلاک اور 22 زخمی ہوگئے تھے۔
رواں برس افغانستان میں سلامتی کے حوالے سے خاصا اہم خیال کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما اگلے موسم گرما تک افغانستان سے اپنے 33 ہزار فوجی نکالنے کا اعلان کرچکے ہیں۔
رپورٹ:شادی خان سیف
ادارت:افسر اعوان