افغانستان اب اپنے ملک بدر کیے گئے شہری واپس لینے پر آمادہ
30 اکتوبر 2015آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے جمعہ تیس اکتوبر کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق جرمن سفارتی ذرائع نے اب اس امر کی تصدیق کر دی ہے کہ کابل حکومت مستقبل میں جرمنی سے ملک بدر کر کے واپس بھیجے گئے افغان شہریوں کو اپنے ہاں قبول کر لے گی۔
ویانا میں جرمن سفارتی ذرائع نے بتایا کہ اس موضوع پر آسٹریا کے دارالحکومت میں شامی بحران کے موضوع پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے ٹیلی فون پر افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ بات چیت بھی کی۔
روئٹرز نے لکھا ہے کہ اس گفتگو میں جرمن وزیر خارجہ نے تارکین وطن سے متعلقہ امور کے افغان وزیر کے حالیہ بیانات پر اپنے عدم اطمینان اور بے چینی کا اظہار کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ شٹائن مائر کی طرف سے عدم اطمینان کے اظہار پر افغان صدر غنی نے جرمن وزیر خارجہ کو یقین دہانی کرائی کہ جو کچھ تارکین وطن سے متعلقہ امور کے افغان وزیر نے کہا، وہ غنی حکومت کا موقف نہیں ہے۔
’’صدر اشرف غنی نے شٹائن مائر کو یقین دلایا کہ افغان حکومت اپنے ملک بدر کیے گئے شہریوں کی واپسی سے متعلق خود پر عائد ہونے والی بین الاقوامی ذمے داریاں لازمی طور پر پورا کرے گی۔‘‘
قبل ازیں افغان حکومت میں تارکین وطن کے امور کے وزیر نے کابل میں اس بارے میں اپنے بیان کے ذریعے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا تھا کہ آیا کابل حکومت جرمنی سے ملک بدر کیے گئے افغان شہریوں کو واپس لینے کی پابند ہے۔ بعد میں اس وزارت کے ایک ترجمان نے بھی یہ کہہ دیا تھا کہ اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے مابین پہلے سے کوئی اتفاق رائے موجود نہیں ہے۔
روئٹرز کے مطابق اس افغان وزارت کی طرف سے یہ بات وفاقی جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کے اس حالیہ اعلان کے ردعمل میں کہی گئی تھی کہ جرمنی میں پناہ کے متلاشی افغان شہریوں کو آئندہ بڑی تعداد میں ملک بدر کر دیا جائے گا۔
سال روان کے دوران سیاسی پناہ حاصل کرنے کے ارادے سے جرمنی پہنچنے والے افغان شہریوں کی تعداد میں بےتحاشا اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ ہی افغانستان میں سلامتی کی صورت حال ہندو کش کی اس ریاست میں گزشتہ برس کے آخر میں نیٹو کے اس فوجی مشن کے خاتمے کے بعد سے مزید ابتر ہو گئی ہے، جس میں جرمن فوجی دستے بھی شامل تھے۔
افغانستان میں اس سال کے اوائل سے جو جرمن فوجی تعینات ہیں، وہ وہاں پر اب صرف فوجی مشیروں کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔