1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’افغانستان اب پاکستان سے بدلہ لینا چاہتا ہے‘

شکور رحیم ، اسلام آباد24 جون 2014

پاکستان نے افغان حکام کے ان الزامات کو ’انتہائی مایوس کن‘ قرار دیا ہے، جن کے مطابق سادہ کپڑوں میں ملبوس پاکستانی فوجیوں نے افغان چوکیوں پر حملہ کیا ہے۔ افغان حکام کے مطابق جوابی کارروائی کے لیے مختلف آپشنز زیرِ غور ہیں۔

Zum Thema - hohe Verluste afghanischer Sicherheitskräfte alarmieren die Nato
تصویر: Getty Images/Afp/Shah Marai

پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے منگل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ افغان چوکیوں پر حملے کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ ترجمان کے مطابق سینئر افغان عہدیداروں کی طرف سے ایسے الزامات سامنے آئے ہیں کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس پاکستانی فوجیوں نے صوبہ کُنڑ میں حملے کیے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ در حقیقت پاکستانی افواج پر سرحد پار افغان علاقے میں موجود دہشت گردوں نے متعدد بار حملے کیے ہیں، ’’ہماری افواج نے زیادہ سے زیادہ تحمل اور ذمہ داری کے ساتھ صرف اپنے دفاع میں قدامات کیے ہیں۔‘‘

قبل ازیں افغان وزارتِ خارجہ کے ترجمان احمد شکیب مستغنی نے پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا، ’’سویلین کپڑوں میں ملبوس پاکستانی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد نے، جو پاکستانی فوج کے روایتی اسلحے سے بھی لیس تھے، دو روز پہلے افغان فوج کی چوکیوں پر حملہ کیا اور افغان فوج کے تین سپاہیوں کو شہید کر دیا۔‘‘

افغان وزارتِ خارجہ کے مطابق یہ حملہ صوبے کُنڑ کے ضلع دانگام میں کیا گیا۔ افغان ترجمان نے مزید کہا، ’’پاکستانی فوجیوں کے حملے کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے مختلف آپشنز زیرِ غور ہیں اور مناسب موقع آنے پر ڈیورنڈ کے اُس پار سے افغانستان میں کیے جانے والے حملے کا جواب دیا جائے گا۔‘‘

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ پاکستان توقع کرتا ہے کہ کابل ایسے اقدامات سے گریز کرے گا جو کہ سرحد پر امن و استحکام کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔

’پاکستانی طالبان کے ٹھکانے افغانستان میں‘

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سعد کا کہنا ہے کہ پاکستان نے شمالی وزیرستان میں شدت پسند طالبان کے خلاف جاری فوجی کارروائی کے دوران افغان حکام کو اپنی سرحد سیل کرنے کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان نے ابھی تک پاکستان کی اس درخواست کا مثبت جواب نہیں دیا۔

بریگیڈیئر سعد کے مطابق، ’’وہ سوچتے ہیں کیونکہ پاکستان ہمارے ہاں مداخلت کر رہا ہے تو یہ مداخلت اگر ہماری طرف سے ہوتی ہے تو ’’ادلے کا بدلہ‘‘ ہو گا اور وہ اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ مطلب ہے کہ لطیف محسود، جو ٹی ٹی پی کا فنانسر تھا، کو افغان انٹیلی جنس کے بیچ میں سے نکال کر امریکی بگرام لے گئے تھے۔ فضل اللہ کدھر بیٹھا ہوا ہے ؟ عمر خالد خراسانی کدھر بیٹھا ہوا ہے ؟یہ سارے اُدھر بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘

افغان امور کے ماہر صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان اور پاکستان نے باہم کشیدگی پر قابو نہ پایا تو اس سے دونوں ممالک کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ایسی حالت میں اگر یہ سفارتی کشیدگی بڑھتی ہے اور اس طرف سے بھی الزامات ہیں اور اگر اس طرف سے بھی الزامات ہیں تو شاید جو پاکستان کی توقع ہے کہ افغانستان اس میں مدد کرے کہ شمالی وزیرستان کا آپریشن کامیاب ہو۔ وہ مقاصد پھر میرے خیال میں ممکن نہیں ہو ہوں گے۔‘‘

خیال رہے کہ پاکستانی افواج نے 14 جون سے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں کالعدم تحریک طالبان کے خلاف آپریشن شروع کر کھا ہے، جس میں فوج کے ترجمان کے مطابق 250 سے زائد شدت پسند مارے جا چکے ہیں۔
پاکستانی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوجی کارروائی کے پیش نظر کالعدم تحریک طالبان کے اہم کمانڈر سرحد پار کر تے ہوئے افغانستان کے صوبہ کنڑ اور نورستان میں چلے گئے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں