1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تجارتافغانستان

افغانستان: الیکٹرانک اسکریپ میں سے سونا تلاش کرنے کا کاروبار

5 ستمبر 2024

افغانستان کے شہر سپن بولدک میں الیکٹرانک اسکریپ میں سے سونا تلاش کرنے کا کاروبار پھل پھول رہا ہے۔ حالانکہ یہ کام صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہے۔

ایک گرام سونے کے لیے کم از کم 10 ٹیلی وژن توڑنے پڑتے ہیں
ایک گرام سونے کے لیے کم از کم 10 ٹیلی وژن توڑنے پڑتے ہیںتصویر: Wakil Kohsar/AFP

افغان سرحدی شہر سپن بولدک میں ایک خستہ حال ورکشاپ کے فرش پر بیٹھے ہوئے مردوں کا ایک گروپ سونے کی تلاش میں ضائع شدہ الیکٹرانکس اسکریپ کو توڑنے میں مصروف ہے۔ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے لیکن اس سے ایک طرف جہاں صحت کو خطرات لاحق ہیں وہیں اس تجارت کے جلد دم توڑ دینے کا بھی خدشہ ہے کیونکہ جدید الیکٹرانکس میں قیمتی دھاتوں کے بجائے سستی دھاتوں کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

افغانستان میں انسانوں کی اسمگلنگ ایک منافع بخش کاروبار

بھارت: الیکٹرانک فضلہ غریب بچوں کو مہلک رزق فراہم کر رہا ہے

الیکٹرانک اسکریپ میں سے سونا تو مل جاتا ہے لیکن اس کی مقدار بہت معمولی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کام صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہے کیونکہ اس میں استعمال ہونے والا تیزاب بہت خطرناک ہے اور دنیا کے اکثر ملکوں میں وہ کھلے عام دستیاب نہیں ہے۔ اس کے باوجود سونے کی بڑھتی ہوئی قیمت کے سبب لوگ خود کو خطرے میں ڈالنے سے گریز نہیں کرتے اور یہ تجارت مقبول ہو رہی ہے۔

سید ولی آغا کہتے ہیں کہ سونا نکالنے میں بہت وقت لگتا ہے اور یہ بہت تھکا دینے والا کام ہےتصویر: Wakil Kohsar/AFP

الیکٹرانک اسکریپ میں سے سونا کیسے نکالا جاتا ہے؟

سپن بولدک کی اس چھوٹی سی ورکشاپ میں سونا ڈھونڈنے والوں کے پاس ماسک اور دستانوں سمیت کوئی حفاظتی سامان نہیں ہے۔ وہ ننگے ہاتھوں اور دیسی اوزاروں سے ناکارہ ٹیلی وژن، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ریڈیو، موبائل فون اور اسی طرح کے دوسرے آلات توڑتے ہیں۔

الیکٹرانکس کا یہ کاٹھ کباڑ جاپان، ہانگ کانگ یا دبئی سے آتا ہے۔

ایشیا: الیکٹرانک کچرے میں حیران کن اضافہ

اس ورکشاپ میں 20 لوگ کام کرتے ہیں۔ وہ الیکٹرانک آلات کو توڑتے ہیں۔ ان کے پرزے الگ کرتے ہیں۔ اس کی دھاتی چیزوں کو انگلیوں یا دیسی ساخت کے کسی اوزار سے کھینچ کر باہر نکالتے ہیں اور پھر ایک خاص تیزاب میں ڈال دیتے ہیں، جس میں سونا الگ ہو جاتا ہے۔

ورکشاب کے مالک 51 سالہ سید ولی آغا ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سونا نکالنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ یہ بہت تھکا دینے والا کام ہے۔ ہمارے پاس ضروری سامان اور اوزار بھی نہیں ہیں۔

سونا برقی رو کے لیے سب سے اچھا کنڈکٹر ہے جس کی وجہ سے الیکٹرانک سرکٹس میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے سونا مہنگا ہو رہا ہے، الیکٹرانکس آلات میں اس کا استعمال گھٹ رہا ہے۔ ولی آغا کہتے ہیں چین کے الیکٹرانکس میں سونا نہیں ہوتا، اس لیے ہم وہ نہیں منگواتے۔

کارکن ننھے پرزوں کو سرکٹ بورڈز سے نکالنے کے بعد اور اسے دوسرے کارکنوں کے حوالے کر دیتے ہیں جو اس میں سے سونا نکالتے ہیں۔ اس کی مقدار انتہائی معمولی ہوتی ہے۔

لیکن یہاں کام ختم نہیں ہوتا۔ اگلا مرحلہ سونے کی صفائی کا ہے۔ ایک اور کارکن سونے کو صاف کرنے کے لیے اسے تیزاب میں ڈالتا ہے جہاں اس پر لگی کثافتیں الگ ہو جاتی ہیں۔

الیکٹرانک اسکریپ میں سے سونا تو مل جاتا ہے لیکن یہ کام صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہےتصویر: Wakil Kohsar/AFP

صحت کو خطرات

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ورکشاپ کے کارکنوں نے بتایا کہ ہم ایک مہینے میں تقریباً 150 گرام سونا نکال لیتے ہیں۔ آغا کے مطابق ایک گرام سونا 5600 افغانی میں فروخت ہوتا ہے جو تقریباً 79 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔

ورکشاپ میں کام کرنے والے ہر کارکن کو تقریباً 166 ڈالر ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ لیکن اس تنخواہ کے ساتھ کارکنوں کو صحت کے خطرات بھی مول لینا پڑتے ہیں۔

ترقی یافتہ ملکوں میں سونا الگ کرنے کے لیے ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے جس میں صحت کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

سید آغا کی ورکشاپ کے ساتھ ہی رحمت اللہ کی بھی ورکشاپ ہے۔ اس میں بھی 20 کارکن کام کرتے ہیں۔ رحمت اللہ نے بتایا کہ یہ مشکل کام ہے جس کے لیے زیادہ آدمیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشکل کا اندازہ صرف اس چیز سے لگا لیں کہ ایک گرام سونے کے لیے کم از کم 10 ٹیلی وژن توڑنے پڑتے ہیں۔

اس تجارت کے جلد دم توڑ دینے کا خدشہ ہے کیونکہ جدید الیکٹرانکس میں قیمتی دھاتوں کے بجائے سستی دھاتوں کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہےتصویر: Wakil Kohsar/AFP

مسقبل زیادہ روشن نہیں

ایک اور 28 سالہ نوجوان نے کہا کہ یہ کاروبار تو اچھا ہے لیکن اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ریڈیو ٹی وی وغیرہ میں اب سونا کم ہوتا جا رہا ہے۔

اسپن بولدک سے سونا نکل کر ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر قندھارپہنچتا ہے جہاں جیولری مارکیٹ ہے۔ اس مارکیٹ میں سونے کے زیورات بنانے والے محمد یٰسین کہتے ہیں کہ ناکارہ الیکٹرانک آلات سے ملنے والا سونا بہت اعلیٰ میعار کا ہوتا ہے۔ وہ 24 قیراط کا ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سین بولدک سے آنے والے سونے کی مقدار بتدریج گھٹ رہی ہے۔ اب ہفتے میں 30 سے 40 گرام تک ہی سونا آتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب جاپان سے آنے والا اسکریپ بھی گھٹ رہا ہے۔ زیادہ تر اسکریپ چین سے آ رہا ہے۔ چین کے الیکٹرانک اسکریپ میں سونا نہیں ہوتا۔

انہوں نے پیش گوئی کی کہ آخرکار افغانستان میں یہ کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔

افغانستان میں سونے کا زیادہ تر استعمال زیورات میں ہوتا ہے۔ افغان شادیوں میں ہر خاندان دلہنوں کو اپنی حیثیت کے مطابق سونے کے زیورات پہناتا ہے۔ بہت سے خاندان اس مقصد کے لیے قرض لیتے ہیں اور پھر اسے برسوں تک چکاتے رہتے ہیں۔

قندھار میں جیولرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر احمد شکیب مشفقی کا کہنا تھا کہ سونے کے زیورات صرف خوبصورتی کے لیے ہی نہیں ہوتے بلکہ خاندانوں کے لیے ایک مستقل اثاثے کی حیثیت بھی رکھتے ہیں جنہیں وہ مشکل وقت میں بیچ کر اپنی ضرورتیں پوری کر سکتے ہیں۔

ج ا ⁄  ص ز ( اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں