امریکی انخلا مکمل، کابل ایئر پورٹ پر طالبان کا کنٹرول
31 اگست 2021
کابل سے آخری طیارے سی 17، جس میں امریکی سفیر بھی سوار تھے، کی پرواز کے ساتھ ہی افغانستان سے امریکا کا انخلا مکمل ہو گیا۔ طالبان نے امریکیوں کے انخلا کی خوشی کا جشن ہوا میں فائرنگ کر کے منایا۔
اشتہار
افغانستان میں امریکی فوج کے اعلی کمانڈر جنرل کینتھ میکنزی نے پینٹا گون میں 31 اگست منگل کی اولین ساعتوں میں افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے مکمل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بہت ممکن ہو کہ اس سے بہت سے لوگوں کو مایوسی ہوئی ہو تاہم یہ بہت مشکل صوت حال ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آخری طیارے میں بچے ہوئے فوجیوں کے ساتھ ہی کابل میں امریکی سفیر بھی سوار ہوئے اور امریکا روانہ ہو گئے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اب بھی بہت سے لوگ افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں جنہیں وہ وہاں سے نکالنا چاہتا ہے اور اس کی یہ کوششیں آگے بھی جاری رہیں گی۔
بیس سالہ جنگ کا خاتمہ
امریکا نے سن 2001 میں نیویارک کے ٹوئن ٹاورز پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تھا اور اس طرح تقریباً بیس برس بعد اس نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں اور اس کے ساتھ ہی افغانستان میں ایک طویل جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔
پینٹا گون میں امریکی انخلا کی تکمیل کا اعلان کرتے ہوئے جنرل کینتھ میکنزی نے کہا، ''میں یہاں افغانستان میں امریکی فوجی مشن کے خاتمے، ان کے انخلا کی تکمیل اور امریکی شہریوں کے انخلا کے بارے میں اعلان کے لیے ہوں۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم ہر اس شخص کو باہر نہیں نکال سکے جن کا انخلا ہم چاہتے تھے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اگر ہم مزید 10 دن اور رکتے، تو بھی ہم ہر اس شخص کو نہیں لا سکتے جنہیں ہم باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ اور پھر لوگ اس سے مایوس بھی ہوئے ہوں گے۔ یہ ایک مشکل صورتحال ہے۔''
طالبان کا جشن
پیر کی درمیانی شب اور منگل کی علی الصبح جیسے ہی امریکا کے آخری جنگی طیارے سی 17 نے کابل سے واپسی کی تیاری شروع کی، طالبان نے حامد کرزئی ایئر پورٹ کی سکیورٹی اپنے کنٹرول میں لے لی۔ طالبان قیادت نے اس امریکی اقدام کی تعریف کی اور کہا کہ افغانستان کو اب مکمل آزادی حاصل ہو گئی ہے۔ انہوں نے اسے، ''تاریخی لمحہ'' قرار دیا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''آج کی شب افغانستان کے مقامی وقت کے مطابق 12 بجے، باقی بچے ہوئے امریکی فوجی بھی کابل ایئر پورٹ سے نکل گئے اور اس طرح ملک مکمل طور پر آزاد ہو گیا۔''
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آخری پرواز کے فوراً بعد کابل شہر کی مختلف چیک پوائنٹوں پر جشن منانے کے لیے فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔ اس حوالے سے بہت سی غیر مصدقہ ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ہیں جس میں طالبان جنگجوؤں کو ہوا میں فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
اشتہار
امریکا کا اپنے شہریوں اور افغان کی مدد کا وعدہ
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ امریکا امریکی، افغان اور دیگر ایسے افراد کی مدد کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا، جو افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ تقریباً 200 امریکی شہری اب بھی افغانستان میں پھنسے ہوئے ہو سکتے ہیں۔
بلنکن نے کہا کہ کابل میں امریکی سفارتخانہ مستقبل قریب تک بند رہے گا اور وہ امریکی سفارت کار جو کابل کے سفارت خانے میں کام کیا کرتے تھے، اب وہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں موجود رہیں گے۔
اقوام متحدہ کی طالبان سے اپیل
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے طالبان پر زور دیا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد بھی جو افغان شہری ملک چھوڑنا چاہتے ہیں انہیں نکلنے کا محفوظ راستہ فراہم کیا جائے۔ حالانکہ سکیورٹی کونسل میں اس حوالے سے پیش ہونے والی قرارداد میں اختلافات بھی کھل کر سامنے آئے اور چین اور روس نے اس کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
طالبان نے کہا کہ وہ ایک بار کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی سنبھال لیں اس کے بعد کسی بھی شخص کو معمول کے مطابق سفر کرنے کی اجازت ہو گی۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔