1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: امریکی دستوں کی حمایت والے اشتہاروں کی حوصلہ شکنی

امجد علی22 جنوری 2014

آج کل افغان حکومت نے، جس کے واشنگٹن حکومت کے ساتھ تعلقات خراب جا رہے ہیں، ایسے اشتہارات کے خلاف مہم چلا رکھی ہے، جن میں 2014ء کے بعد بھی امریکی فوجی دستوں کی ملک میں موجودگی کی تائید و حمایت کی جاتی ہے۔

تصویر: AP

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کابل حکومت ایسے ہی ایک اشتہار کو، جو ملک کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینلز پر چل رہا تھا، بند بھی کر چکی ہے۔

کابل حکومت جن اشتہارات کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، اُن میں سے چند ایک کے لیے مالی وسائل ایک امریکی تنظیم نے فراہم کیے ہیں۔ کابل حکومت ان اشتہارات کو اس بناء پر ہدفِ تنقید بنا رہی ہے کیونکہ ان میں صدر حامد کرزئی پر امریکا کے ساتھ طے پانے والے اُس سکیورٹی معاہدے پر دستخطوں سے انکار کا رویہ ترک کر دینے کے لیے زور دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں امریکی فوجی دستوں کو رواں سال ختم ہو جانے کے بعد بھی افغانستان میں رہنے کی اجازت مل جائے گی۔

جو چینل گزشتہ کئی ہفتوں سے ایسے اشتہارات نشر کر رہے ہیں، اُنہیں اس جواز پر تحقیقات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ اُن کے مالی وسائل کے ذرائع غیر واضح ہیں۔ اب ان تمام چینلز نے یہ اشتہارات دکھانا بند کر دیے ہیں۔

افغانستان میں 2001ء میں طالبان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے تقریباً ایک ہزار نئے اخبارات منظرِ عام پر آئے ہیںتصویر: DW

نیوز ایجنسی روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کے ایک ترجمان باصر عزیزی نے بدھ کے روز کہا، ’ہم نے ان چینلز کے خلاف ایک انکوائری شروع کی ہے، یہ پتہ چلانے کے لیے کہ انہیں اس طرح کے اشتہارات کے لیے پسہ کہاں سے ملتا ہے‘۔

اگرچہ کرزئی مخصوص شرائط کے پورا ہونے تک دو طرفہ سکیورٹی معاہدے BSA پر دستخط کرنے سے انکار کر چکے ہیں تاہم روئٹرز کے بقول بہت سے افغان شہری اس بارے میں بے یقینی کا شکار ہیں کہ نیٹو کی قیادت میں سرگرم عمل ایساف دستوں کی مدد کے بغیر افغان فوج درحقیقت طالبان باغیوں کا مقابلہ کر سکے گی۔

ان اشتہارات میں عام افغان شہریوں کے ساتھ ایسے انٹرویز دکھائے جاتے ہیں، جن میں وہ کرزئی پر یہ زور دیتے ہیں کہ وہ اِس دو طرفہ معاہدے پر فوری طور پر دستخط کر دیں۔

ایک اشتہار میں ایک ثقافتی تنظیم کا سربراہ صدر سے مخاطب ہو کر کہتا ہے، ’آپ کو لوگوں کا مطالبہ مان لینا چاہیے اور جتنی جلد ہو سکے، اس معاہدے پر دستخط ثبت کر دینا چاہییں‘۔

ان اشتہارات کے خلاف مہم واشنگٹن کی جانب کرزئی کے معاندانہ رویے کی تازہ ترین مثال ہیں۔ گزشتہ ہفتے اُنہوں نے ایک ریستوران پر ہونے والے ایک خونریز حملے کا حوالہ دیتے ہوئے امریکا پر الزام لگایا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف اُس کے اقدامات ناکافی ہیں۔

افغانستان میں ذرائع ابلاغ سے متعلق ایک تنظیم NAI نے کہا ہے کہ نشریاتی اداروں پر ڈالا جانے والا دباؤ افغانستان میں ایک آزاد میڈیا کی تشکیل کی کوششوں میں خلل ڈال رہا ہے۔ روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے اس تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل مجیب خلوت گر نے کہا، ’حکومت کی جانب سے اس طرح کے اقدامات اظہارِ رائے کی آزادی کو محدود بنانے کی ایک واضح کوشش ہیں اور میڈیا کے شعبے میں ہونے والی پیشرفت کو خطرے سے دوچار کر رہے ہیں‘۔

کابل حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 2001ء میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک میں پچاس سے زیادہ پرائیویٹ ٹیلی وژن چینل، 150 ریڈیو چینلز جبکہ تقریباً ایک ہزار اخبارات منظرِ عام پر آئے ہیں۔

2001ء میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک میں پچاس سے زیادہ پرائیویٹ ٹیلی وژن چینل قائم ہوئے ہیںتصویر: AP

ان نشریاتی اداروں کے مطابق اُنہیں پتہ تھا کہ ان اشتہاروں کے لیے پیسہ ایساف یا اُن سے متعلقہ گروپوں نے فراہم کیا تھا لیکن یہ کہ وہ ’پبلک سروس‘ ایڈورٹائزنگ کو آمدنی کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھتے تھے۔

افغانستان کے سب سے مقبول ٹی وی چینل ’تولو ٹی وی‘ کے چینل مینیجر مسعود سنجر نے بتایا کہ ’اشتہار BSA سے متعلق ہو یا پھر منرل واٹر کی کسی بوتل کا، اُن پر ایک ہی طرح کے قواعد و ضوابط کا اطلاق ہوتا ہے‘۔ مسعود سنجر کے مطابق چوبیس گھنٹوں میں مختلف اوقات میں اشتہار دکھانے کے لیے سات سو تا ایک ہزار ڈالر فی منٹ کے حساب سے معاوضہ ملتا ہے۔

’تولو ٹی وی‘ کے مطابق یہ اشتہارات ایڈز ولیج نامی ایک کمپنی کی طرف سے فراہم کیے گئے تھے، جس کے عہدیداروں نے یہ تسلیم کیا تھا کہ ان کے لیے فنڈز ایساف یا پھر امریکا کی امدادی ایجنسی یو ایس ایڈ کی جانب سے فراہم کیے گئے تھے۔

اس سلسلے میں جب ایساف کے ساتھ رابطہ کیا گیا تو وہاں کے متعلقہ کارکنوں نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ وہ اشتہارات پر کتنا پیسہ خرچ کرتے ہیں، ’پبلک کے لیے جاری کی جانے والی معلومات کا مقصد عوام کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ عوام کو ایساف اور افغان نیشنل سکیورٹی فورسز میں ہمارے پارٹنرز کے مشن اور آپریشنز کے بارے میں معلومات مہیا کی جائیں‘۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں