افغانستان: امریکی فوج کے انخلاء کی سالگرہ پر طالبان کا جشن
31 اگست 2022حالانکہ افغانستان پر ایک برس قبل کنٹرولحاصل کرنے کے باوجود ملک کے نئے حکمراں، طالبان، کو کسی بھی ملک نے اب تک باضابطہ تسلیم نہیں کیا ہے اور اس دوران انہوں نے خستہ حال ملک میں سخت گیر اسلامی قوانین دوبارہ نافذ کردیے ہیں اور بالخصوص عورتوں کو ان کے حق سے محروم رکھا ہے۔
تاہم پابندیوں اور انسانی بحران میں روزافزوں اضافے کے باوجود بیشتر افغان غیر ملکی فورسز کے افغانستان سے چلے جانے پر خوش ہیں۔
کابل کے رہائشی زلمی کا کہنا تھا، "ہمیں خوشی ہے کہ اللہ نے ہمارے ملک کو کافروں سے نجات دلائی اور اسلامی امارات کا قیام عمل میں آگیا۔"
افغان طالبان کی پہلی کامیابی، روس میں سفارت کار کی تقرری
گذشتہ برس 31 اگست کی نصف شب کو آخری فوج کی واپسی کے ساتھ ہی امریکہ کی طویل ترین جنگ اپنے اختتام کو پہنچی تھی، جس کا آغاز نیویارک میں 11ستمبر 2001 کو ہونے والے حملوں کے بعد ہوا تھا۔
اس 20 سالہ جنگ کے دوران تقریباً 66000 افغان فورسز اور 48000 شہری ہلاک ہوئے تاہم اس تصادم میں 2461 امریکی فوجی بھی مارے گئے، جس کا بوجھ امریکیوں کے لیے ناقابل برداشت ہو گیا تھا۔
اس دوران دیگر نیٹو ممالک کے 3500 سے زائد فوجی بھی مارے گئے۔
امریکی فوج نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا،"افغانستان میں جنگ کا بوجھ امریکیوں کے بس سے باہر ہو چکا تھا۔"
گزشتہ برس امریکی فوج کے انخلاء سے دو ہفتے قبل طالبان نے حکومتی فورسز کے خلاف برق رفتار کارروائی کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔
جشن کا ماحول
بدھ کے روز کابل کی تقریباً تمام اہم عمارتوں پرطالبان کے پرچم لہراتے نظر آرہے ہیں۔ یہ جشن امریکہ کے علاوہ دو دیگر حکومتوں سابق سوویت یونین اور برطانیہ کے خلاف جنگ میں فتح کی یاد میں بھی منایا جارہا ہے۔
سرکاری عمارتوں اور لیمپ پوسٹوں پر کلمہ طیبہ والے سینکڑوں سفید پرچم لہرا رہے ہیں۔ منگل کی دیر رات کابل کی فضاوں میں آتش بازی بھی دیکھنے کو ملی جب کہ طالبان جنگجووں نے خوشی کی علامت کے طور پر فضا میں فائرنگ بھی کی۔
سابقہ امریکی سفارت خانے کے قریب مسعود اسکوائر پر مسلح جنگجو طالبان کا پرچم لہراتے ہوئے اور "امریکہ مردہ باد" کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھے گئے۔ کچھ دیگر طالبان جنگجوو ں نے گاڑیوں کا ہارن بجاتے ہوئے شہر میں جلوس نکالا۔
طالبان کے سوشل میڈیا اکاونٹس پر نئے تربیت یافتہ فوجیوں کی درجنوں ویڈیو اور تصویریں پوسٹ کی گئی ہیں، جن میں بہت سے افراد کے ہاتھوں میں امریکی فوجی ہتھیار لہراتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جسے امریکہ افراتفری میں انخلاء کے دوران چھوڑ گیا تھا۔
افغانستان: جنگ سے تباہ شدہ گاؤں کو تعمیر کرنے کی کوشش
امریکہ کے سابق سفارت خانے کی دیوار پر پینٹ کی گئی طالبان کے ایک بڑے پرچم کی تصویر کے ساتھ ٹوئٹر پر ایک پوسٹ میں لکھا گیا ہے، "یہ اس بات کا مظہر ہے کہ ایک سپر پاور کوحقارت کے ساتھ ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔"
فتح کا جشن لیکن سنگین انسانی بحران
اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے کا فخریہ اظہار کے باوجود یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ افغانستان کی 38 ملین آبادی اس وقت سنگین انسانی بحران سے دوچار ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے غیر ملکی بینکوں میں منجمد ہیں اور اسے مالی امداد روک دی گئی ہے۔
عام افغان شہریوں اور بالخصوص عورتوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ طالبان نے بہت سے صوبوں میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند کردیے ہیں اور خواتین کے لیے بہت سے سرکاری ملازمتوں پر روک لگادی ہے۔ خواتین کو گھر سے باہر نکلتے وقت برقعہ پہننے کا حکم ہے۔
طالبان کے اقتدار کے عملاً مرکز قندھار کی ایک رہائشی اور انوس عمرزئی کہتی ہیں،"مجھے اب ملازمت کے بغیر گھر میں بیٹھنا پڑ رہا ہے۔"
اصلاحات کیسی اور کتنی؟ ایک سال بعد بھی طالبان تقسیم کا شکار
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا تاہم کہنا ہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران انہوں نے بہت سی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے کہا، "اب کوئی افغان جنگ میں مارا نہیں جا رہا ہے،غیر ملکی فورسز واپس جاچکی ہیں اور سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔"
ج ا / ص ز (اے ایف پی)