افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرہار میں ایک انتخابی جلسے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 13 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ حکام کے مطابق اس دھماکے کے نتیجے میں 30 سے زائد زخمی بھی ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے افغان صوبہ ننگرہار کے گورنر کے ترجمان عطااللہ خوگیانی کے حوالے سے بتایا ہے کہ زخمیوں میں سے بعض کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ اس بات خدشہ ہے کہ ہلاک شدگان کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ خودکش حملہ ننگرہار صوبے کے ضلع کاما میں آج منگل دو اکتوبر کی سہ پہر کو ہوا۔ خودکش حملہ آور نے عبدالناصر محمد نامی ایک آزاد امیدوار کی انتخابی ریلی کے دوران خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
ننگر ہار کی صوبائی کونسل کے ایک رُکن سہراب قادری نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ مذکورہ انتخابی جلسے میں 250 کے قریب افراد جمع تھے جب یہ دھماکا ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں کی کم از کم تعداد 20 ہے جبکہ درجنوں دیگر زخمی ہیں۔
افغانستان میں 20 اکتوبر کو پارلیمانی انتخابات شیڈول ہیں۔ اس سلسلے میں پورے ملک میں انتخابی مہم کا آغاز جمعہ 28 ستمبر کو ہوا تھا۔
ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔ خیال رہے کہ پاکستانی سرحد کے قریب موجود صوبہ ننگر ہار میں طالبان کے علاوہ داعش سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند بھی موجود ہیں اور رواں برس کے دوران ان دونوں کی طرف سے متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی جا چکی ہے۔
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.