’افغانستان اور پاکستان علاقائی سالمیت کے لیے کام کریں گے‘
6 مئی 2019
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے خطے میں امن و امان اور ترقی و خوشحالی کے لیے مشترکہ اقدامات اٹھائے جانے پر اتفاق کیا ہے۔
اشتہار
پاکستان کے وزیر اعظم کے آفس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اشرف غنی نے اتوار کو عمران خان سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ گفتگو میں دونوں ممالک کے رہنماؤں نے علاقائی رابطے کو بڑھانے، غربت کے خاتمے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مشترکہ طور پر کوشش کرنے کا اعادہ کیا۔
عمران خان کی جانب سے کہا گیا،’’افغانستان میں کئی سالوں سے جاری تنازعے نے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کو بھی متاثر کیا ہے۔ دونوں ممالک کی قیادت کو امن کے قیام کے لیے کام کرنا ہوگا۔‘‘
پاکستانی وزیر اعظم نے افغان صدر کو پاکستان دورے کی دعوت بھی دی۔ چار روز قبل مبینہ طور پر افغانستان سے کیے جانے والے ایک حملے میں تین پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ مقامی ذرائع کے مطابق یکم مئی کو افغاستان سے ساٹھ یا ستر دہشت گردوں نے پاکستانی فوجیوں پر حملہ کیا تھا۔
پاکستان اپنی مغربی سرحد پر باڑ لگانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسلام آباد الزام عائد کرتا ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحد کو اسمگلنگ اور دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم کابل پاکستان کے اس فیصلے سے ناخوش ہے اور اس کی مخالفت بھی کر رہا ہے۔ پاکستانی اخبار ڈان نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوج افغانستان کے ساتھ سرحد پر تقریباً 1000 کلومیٹر کے حصے پر باڑ لگا چکی ہے۔
ب ج/ ع ا
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔