1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان سے جھڑپوں کے سبب افغان طالبان کی حمایت ميں اضافہ

جاوید اختر حسین سیرت
7 دسمبر 2025

افغانستان اور پاکستان کی سرحدی جھڑپوں کے تناظر میں طالبان کے لیے داخلی سطح پر عوامی حمایت بڑھی ہے۔ تاہم ماہرین خبردار کرتے ہيں کہ قوم پرست جذبات ميں اضافے سے طالبان کی قانونی حيثيت کو فائدہ نہيں پہنچے گا۔

Afghanistan Kandahar Daman 2025 | Taliban-Wachmann bei Drogenrehabilitation für frühere Süchtige
تصویر: Sanaullah Seiam/AFP/Getty Images

نومبر کے اواخر میں پاکستان اور افغانستان کے درمیانکشیدگی کی تازہ ترين لہر ميں طالبان نے الزام لگایا کہ پاکستان نے حملہ کیا، جس ميں کم از کم 10 شہریی بشمول نو بچے ہلاک ہوئے۔ اس کے رد عمل میں طالبان نے پاکستان کے ساتھ 2,640 کلومیٹر طویل سرحد، جسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے، پر جوابی حملے کیے۔

پاکستانی فوج نے افغان علاقے پر حملے کے دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیا۔ ماضی کی جھڑپوں میں پاکستانی حکام کا اصرار رہا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو افغان سرزمین پر چھپے ہوئے ہیں۔

طالبان کے اقدام سے خوست اور جلال آباد جیسے شہروں میں ان کے حامیوں میں خوشی کی لہر دیکھی گئی۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور طالبان کا پر جوش انداز سے استقبال کیا۔ سوشل میڈیا پر بھی پذیرائی کی ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں طالبان کو افغانستان کی علاقائی خود مختاری کے تحفظ کے ليے سراہا گيا۔

یہ مناظر ایسے وقت پر سامنے آئے جب خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر وسیع تر پابندیوں اور ديگر سخت گير پالیسیوں کی وجہ سے طالبان کو بين القوامی سطح پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔

تصویر: DW

کیا سوچ میں تبدیلی آرہی ہے؟

اس پيش رفت کے بعد داخلی سطح پر تبدیلی آئی ہے۔ کئی افغان سوشل میڈیا صارفین نے پاکستان کے خلاف طالبان کے رد عمل کی تعریف کی۔ حتیٰ کہ کچھ سابق افغان سکیورٹی حکام، جو کبھی طالبان کے سخت مخالف تھے، نے بھی حمايت کا اظہار کیا۔

سابق ڈپٹی وزیر داخلہ خوشحال سادات، جنہوں نے برسوں تک طالبان کے خلاف جنگ ميں حصہ ليا، انہی آوازوں میں شامل ہيں۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے پاکستان کے حملوں کا کہیں زیادہ فیصلہ کن جواب دیا ہے، جو سابقہ مغربی حمایت یافتہ حکومت کبھی نہیں دے سکی۔ انہوں نے کہا، ''اس وقت ہم سمجھتے تھے کہ طالبان (پاکستان کی) کٹھ پتلی ہیں۔ ہاں، ایک یا دو لوگ ہوں گے جو ان کے احکامات مانتے ہوں، لیکن سب ایسے نہیں تھے۔‘‘

چند ماہ پہلے ایسے بیانات کا تصور بھی ناممکن تھا، خاص طور پر ایک ایسے شخص کی جانب سے جو 2021 میں افغانستان کی امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے سے قبل طالبان کے شدید مخالف کے طور پر جانا جاتا تھا۔

سوشل میڈیا پر طالبان کی مہم کو فروغ

سکیورٹی تجزیہ نگار اور سابق افغان سرکاری اہلکار بسم اللہ تبان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے سرحدی جھڑپوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیزی سے اقدامات کیے۔ انہوں نے کہا، ''حامیوں نے اس صورت حال کو طالبان کی ساکھ بہتر بنانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ طالبان کے کئی عہدیداروں نے جشن مناتے ہوئے ویڈیوز کو پھیلایا۔‘‘

عوامی تائيد کی اس لہر کے باوجود کئی سیاسی ماہرین، جن میں سابق افغان حکومت کے اہلکار بھی شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ پاکستان سے ٹکراؤ طالبان کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ کو بہتر نہيں بنا سکتا۔ مجیب الرحمن رحیمی، جو طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، کا اصرار ہے کہ طالبان کا پاکستان کے ساتھ تنازعہ پورے افغانستان کی جنگ نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان کے ساتھ طالبان کی لڑائی نہ تو افغانستان کی جائز حکومت کی جنگ ہے اور نہ ہی یہ افغان عوام کی پاکستان کے ساتھ جنگ ہے۔‘‘

ان کے مطابق طالبان کو پاکستان کی "کٹھ پتلی اور پراکسی گروہ" کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ رحیمی اور دیگر سابق حکام کا کہنا ہے کہ 'پاکستان نے طالبان کو تخلیق کیا اور ان کی حمایت کی، اس لیے موجودہ جھڑپیں دراصل دو ریاستوں کے درمیان نہیں بلکہ پاکستان اور اس کے اپنے بنائے ہوئے گروہ کے تعلقات میں خرابی کی عکاسی کرتی ہیں‘۔

سابق وزیرِ تعلیم عباس بصیر کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقدامات قومی مفاد میں نہیں بلکہ اس فیصلے کا نتیجہ ہیں کہ انہوں نے ایسے عسکریت پسندوں کو پناہ دے رکھی ہے جو سرحد کے دونوں جانب عدم استحکام پھيلاتے ہیں۔

افغان طالبان پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پناہ دینے کے الزامات ہیں، جو نظریاتی طور پر افغان طالبان سے منسلک ایک عسکریت پسند تنظیم ہے اور پاکستانی ریاست کے خلاف لڑتی ہے۔ عباس بصیر  نے کہا، ''ٹی ٹی پی کو پناہ دے کر طالبان نے پاکستان کے ساتھ تصادم کی بنیاد خود پیدا کی ہے۔‘‘

بہت سے تجزیہ کاروں کے مطابق، حاليہ واقعات افغانستان کے اندر کسی سیاسی یا سماجی تبدیلی کے ضامن نہيں۔

ملک میں دہشت گردی افغانستان سے محبت کا شاخسانہ ہے، خواجہ آصف

17:51

This browser does not support the video element.

پرانے اتحادی کیسے دشمن بن گئے؟

کئی بين الاقوامی مبصرين کے مطابق صرف چند سال پہلے تک طالبان اور پاکستان کی عسکری قیادت کے تعلقات تھے۔ اگست 2021ء میں مغربی حمایت یافتہ افغان حکومت کے خاتمے کے بعد کے دنوں میں پاکستان کی فوجی انٹیلی جنس کے اس وقت کے سربراہ جنرل فیض حمید کو طالبان رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کابل کے ایک ہوٹل میں چائے پیتے دیکھا گیا تھا۔ اس تصویر کو اس وقت پاکستان کے طالبان پر گہرے اثر و رسوخ کی علامت سمجھا گیا۔

آج صورتحال مختلف ہے۔ پاکستان طالبان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو افغانستان کے اندر سے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر مہلک حملے کرنے کے لیے منصوبہ بندی اور رابطہ کاری کی اجازت دے رہے ہیں۔ طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی گروہ کو افغان سرزمین استعمال کر کے کسی دوسرے ملک کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتے۔

پاک افغان تنازعات سے عوام سخت پریشان

04:05

This browser does not support the video element.

ادارت: عاصم سليم

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں