افغانستان: ایک نہ ختم ہونے والی جنگ
31 مئی 2017بدھ کے روز افغانستان کے سفارتی علاقے میں ہونے والے بم دھماکے کی شدت ایک زلزلے کی طرح محسوس کی گئی۔ انتہائی سکیورٹی والے سفارتی علاقے میں ایسا شدید حملہ سن دو ہزار ایک کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ 80 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 350 سے زائد زخمی ہوئے ہیں اور ان میں جرمن سفارت خانے کے لوگ بھی شامل ہیں۔
پچاس سے زائد گاڑیاں تباہ ہوئی ہیں اور کھڑکیوں کے شیشوں کے ٹکڑے سینکڑوں میٹر دور جا کر گرے ہیں۔ یہ حملہ ایک ایسے سفارتی علاقے میں ہوا ہے، جہاں غیرملکی ملٹری مشن کے دفاتر بھی موجود ہیں۔ اس علاقے میں پہلے بھی حملے ہو چکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ حملہ آور اس اہم ترین، حساس اور انتہائی الرٹ سکیورٹی والے علاقے تک پہنچ کیسے جاتے ہیں، ایک اتنا بڑا ٹینکر ٹرک کیسے وہاں تک پہنچ گیا؟
اس حملے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سولہ سالہ جنگ، ہزاروں ہلاکتوں اور اربوں ڈالر جھونکنے کے بعد کچھ بھی نہیں بدلا۔ خود سفارت کاروں کو مضبوط اور اونچی اونچی دیواروں کے پیچھے چُھپنا پڑ رہا ہے اور پھر بھی وہ وہاں محفوظ نہیں ہیں۔
موجودہ صورتحال تین سیاسی بحرانوں کا نتیجہ
افغانستان کی موجودہ صورتحال تین سیاسی بحرانوں کا نتیجہ ہے۔ خود حکومت تقسیم ہو چکی ہے اور اس میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ افغانستان کے اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات بگڑتے جا رہے ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ جاری لڑائی طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔
صدر اشرف غنی کی حکومت کو مغرب کی حمایت تو حاصل ہے لیکن یہ ایک کمزور حکومت ہے۔ اس کے خلاف بدعنوانی کے الزامات ہیں اور اس کا اثرو رسوخ بھی محدود ہے۔ دوسری جانب طالبان باغی ہیں، جو ملک کے بڑے حصے کو کنٹرول کرتے ہیں۔
افغانستان کے اپنے پاکستان جیسے ہمسایہ ملکوں سے تعلقات خراب ہوتے جا رہے ہیں لیکن پاکستان کا افغانستان کے مستقبل کی سلامتی میں مرکزی کردار ہے۔ امریکا اسی وجہ سے پاکستان کو فوجی اور مالی امداد کے ساتھ اپنی طرف لانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق پاکستان نے اس صورتحال کو دونوں طرف سے فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ وہ امریکی امداد بھی حاصل کرتا رہا ہے اور پس پردہ طالبان کی حمایت بھی تاکہ بھارت کے مقابلے میں افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھ سکے۔
اسی طرح افغانستان کے دو دیگر علاقائی طاقتوں ایران اور روس کے ساتھ تعلقات بھی تناؤ کا شکار ہیں اور ان کی مدد کے بغیر بھی افغانستان میں پائیدار امن کا حصول ناممکن ہے۔ دوسری جانب افغانستان روس اور امریکا کے لیے ایک نیا میدان جنگ بنتا جا رہا ہے لیکن اس مرتبہ کردار بدل گئے ہیں۔ اب روس طالبان کی قُربت چاہتا ہے جبکہ امریکا کابل حکومت کی مدد کر رہا ہے۔
مغرب روس کے نئے عزائم کو فکرمندی سے دیکھ رہا ہے اور افغانستان میں امن کے حوالے سے ماسکو میں ہونے والے مذاکرات کو بھی۔ دوسری جانب ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ ٹرمپ حکومت افغانستان میں دوبارہ نو ہزار کے قریب فوجی تعینات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو افغان فوجیوں کی تربیت کے بجائے طالبان کے خلاف لڑائی میں حصہ لیں گے۔
گزشتہ ہفتے سے امریکی ڈرون حملوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے مقابلے میں داعش اور طالبان کے خلاف سب سے زیادہ ڈرون حملے کیے جا رہے ہیں۔ اپریل میں ہندوکش میں مارچ کے مقابلے میں دو گنا زیادہ بم پھینکے گئے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی برسوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود افغانستان میں سیاسی عمل اپنے ابتدائی مرحلے سے آگے نہیں بڑھ پایا اور افغانستان کے ساتھ امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
افغانستان کی جنگ صرف اور صرف سیاسی حل سے ہی جیتی جا سکتی ہے کیوں کی طاقت اور فوج کے بل بوتے پر یہ گزشتہ سولہ برسوں میں نہیں جیتی جا سکی اور اس جنگ میں نقصان سبھی فریقوں کا ہو رہا ہے۔