افغانستان: بم حملوں کا نشانہ بننے والے شہریوں کی مشکلات
13 اپریل 2012خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان ميں بين الاقوامی ادارے ريڈ کراس کے آرتھوپيڈک مراکز ميں سالانہ چھ ہزار نئے مريض آتے ہیں۔ ان ميں سے لگ بھگ ايک ہزار مريض ملک ميں طالبان کے بم حملوں کے نتيجے ميں معذوريوں اور ديگر مسائل کے شکار ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے ميں دارالحکومت کابل ميں سن 1990 سے کام کرنے والے اطالوی فزيو تھراپسٹ Alberto Cairo کا کہنا ہے: ’ميں يہ تو نہيں کہہ سکتا کہ بم حملوں سے متاثرہ افراد کی تعداد ميں اضافہ ہو رہا ہے البتہ يہ ضرور کہوں گا کہ بم دھماکوں کی شدت ميں ضرور ہو رہا ہے۔‘
روئٹرز کے مطابق انتہا پسندوں کی جانب سے بنائے جانے والے بموں ميں جدت کا عمل ديکھنے ميں آيا ہے۔ گزشتہ چند برسوں ميں بموں کے اندر مختلف دھاتوں کے ٹکڑے یا کیل استعمال کیے جاتے تھے مگر اب ان ميں ممکنہ طور پر پاکستان سے آنے والے فرٹيلائزر يا کھاد کے آثار بھی ملتے ہيں۔ اس کے علاوہ چند فوجی جرنيلوں نے يہ دعوٰی بھی کيا ہے کہ طالبان کی جانب سے شہری علاقوں اور ان ميں مقيم آباديوں کو نشانہ بنانے کے ارادے سے نصب کيے جانے والے بموں ميں اب خون، پيشاب اور ديگر غلیظ اشیاء کا استعمال بھی کيا جاتا ہے۔ اس اقدام کا مقصد ممکنہ طور پر متاثرين ميں ’انفیکشن‘ پيدا کرنا ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان ميں جاری جنگ کے دوران شہريوں کی اموات ميں لگاتار پانچويں مرتبہ بھی اضافہ ہی ريکارڈ کيا گيا ہے۔ سن 2011 ميں شہريوں کی اموات کی تعداد تين ہزار سے زائد رہی۔ روئٹرز کے مطابق اس تعداد کا ايک بڑا حصہ طالبان کی دہشت گردانہ کارروائيوں کے باعث موت کا شکار بنا۔ اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ ميں اس بات کا انکشاف کيا گيا ہے کہ طالبان کا مؤثر ترين ہتھيار ’Improvised Explosive Devices‘ يا ديسی ساختہ بم ہيں جن کو سڑکوں کے کنارے اور خود کش حملہ آوروں کے سينے پر نصب کيا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سويلين اموات کی وجہ ايسی ہی IEDs بنتی ہيں۔
دوسری جانب نيٹو افواج کا بھی يہی کہنا ہے کہ طالبان کا مؤثر ترين ہتھيار IEDs ہيں اور ان ديسی ساختہ بموں کو غير فعال بنانے کا کام فوجی اہلکاروں کے ليے سب سے خطرناک ہوتا ہے۔ امريکی رپورٹوں کے مطابق متعدد امريکی فوجيوں کو بھی ايسے بموں کے نتيجے ميں معذوریوں کا شکار ہونا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ايک وقت ايسا بھی تھا جب ہر ماہ بیس کے قریب امریکی فوجیوں کے مختلف جسمانی اعضاء انفیکشن کے باعث کاٹ دیے جاتے تھے۔
واضح رہے کہ 2014ء ميں افغانستان سے بين الاقوامی افواج کے انخلاء کا وقت قريب آتا جا رہا ہے۔
as/hk/Reuters