افغانستان: تشدد کا نیا انداز
13 جون 2016افغانستان میں ہائی ویز پر ہونے والے تشدد کے تناظر میں ماہرین نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی پشت پناہی سے تیار کی جانے والی اُس پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جس کے تحت شاہراہوں پر قائم حفاظتی چوکیوں کو کم کیا جا رہا ہے۔ کابل حکام کے مطابق اس پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے بعد پولیس اور فوجی اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد سے سڑکوں کی حفاظت کرانے کی بجائے انہیں طالبان کی شدت پسندی کو روکنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مئی کے آخر سے لے کر اب تک شمالی اور مشرقی افغانستان مں رونما ہونے والے ایسے واقعات میں دو سو سے زائد افراد کو اغوا جبکہ اکیس کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ افغانستان کے بہت سے علاقوں میں سڑکوں پر سفر کرنا پہلے ہی خطرے سے خالی نہیں تھا اور اس طرح کے واقعات نے عوام کو مزید خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ اس طرح طالبان اور دیگر شدت پسند تنظیمیں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
اغوا اور قتل کے زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری طالبان پر عائد کی جا رہی ہے۔ مئی میں ہی طالبان نے اپنے نئے رہنما کا اعلان کیا ہے اور خیال ہے کہ اس شدت پسند گروپ نے اب غالباً آسان اہداف کو نشانہ بنانے کا طریقہ کار اپنا لیا ہے۔ افغان وزارت دفاع کے ایک ترجمان کے مطابق سفر کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول بہت سے علاقوں میں پولیس کی گشت بڑھا دی گئی ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں سامان کی زیادہ تر نقل و حمل سڑکوں کے ذریعے ہی کی جاتی ہے جبکہ سرکاری اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد بھی فضائی سفر کے انتہائی مہنگا ہونے کی وجہ سے گاڑیوں میں سفر کرنے کو فوقیت دیتی ہے۔