1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: تین روزہ جنگ بندی شروع، امن کی امید روشن

31 جولائی 2020

طالبان اورافغان سکیورٹی فورسز کے درمیان جمعہ 31 جولائی سے تین روزہ جنگ بندی شروع ہوگئی ہے، جس سے افغانستان میں امن مذاکرات بحال ہونے کے امکانات اور دو عشروں سے جاری تصادم کے ختم ہونے کی امید بھی پیدا ہوئی ہے۔

Eid al-Adha Gebet in Afghanistan
تصویر: picture-alliance/AA/W. Sabawoon

ادھر جنگ بندی شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل افغانستان کے مشرقی صوبے لوگر میں ہونے والے ایک کار بم دھماکے میں کم از کم 17افراد ہلاک اور 21 دیگر زخمی ہوگئے۔ گوکہ طالبان نے اس میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے تاہم یہ واقعہ ملک کو درپیش چیلنجز کی شدت کو اجاگر کرتا ہے۔

عیدالاضحی کے موقع پر یہ تین روزہ جنگ بندی پچھلے 19 برسوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران تیسری باضابطہ جنگ بندی اور پچھلے دو ماہ میں دوسری جنگ بندی ہے۔ اس سے قبل طالبان اور افغان حکومت نے رمضان المبارک کے اختتام اور عید الفطر کے موقع پر تین روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔

ایک اسکول ٹیچر 26 سالہ زماں رائے صدیقی نے کہا”یہ امن کے لیے ایک تاریخی موقع ہے اور کسی کو بھی اسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔"  صدیقی کا کہنا تھا”میں اس جنگ کے دوران ہی بڑا ہوا ہوں۔ اب حد سے زیادہ ہوچکا ہے۔ اب افغانستان کو ایک دیرپا اور مستقل امن کی اشد ضرورت ہے۔“

افغان صدر اشرف غنی اور طالبان دونوں نے ہی عیدالاضحی کے فوراً بعد امن مذاکرات شروع کرنے کا اشارہ دیا ہے جبکہ متعدد حلقوں کی جانب سے فریقین سے جنگ بندی کی اپیلیں کی جارہی تھیں۔

افغان مسلمان جلال آباد میں عیدالاضحی کی نماز ادا کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/AA/W. Sabawoon

 افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پرجنگ بندی کی اطلا ع دیتے ہوئے کہا”عید الاضحی کے مذہبی تہوار کے موقع پر طالبان کی جانب سے شدت پسند کارروائیاں نہیں کی جائیں گی۔"  انہوں نے جنگجوؤں کو ہدایت کی کہ وہ عید الاضحی کے تین دن اور تین راتوں کے دوران ’دشمن‘کے خلاف کارروائیوں سے گریز کریں۔ طالبان کے ترجمان نے تاہم یہ دھمکی بھی دی کہ’’اگر دشمن نے حملہ کیا تو جوابی کارروائی کی جائے گی۔“

دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان نے کہا کہ افغان حکومت نے تمام سکیورٹی فورسز کو جنگ بندی کا حکم دے دیا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا”افغان حکومت، طالبان کی جانب سے عید الاضحی پر جنگ بندی کے اعلان کا خیر مقدم کرتی ہے۔"  انہوں نے بتایا کہ تمام سکیورٹی فورسز کو تاہم یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ اگر طالبان کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی تو بھرپور جوابی کارروائی کی جائے۔

گوکہ اس تین روزہ جنگ بندی کے اعلان سے عوام نے تھوڑی راحت کی سانس لی ہے تاہم وہ اس کے تئیں بہت زیادہ پراعتماد نہیں ہیں۔ سابقہ دو مرتبہ جنگ بندی کی مدت کے ختم ہوتے ہی طالبان دوبارہ میدان جنگ میں پہنچ گئے تھے۔

اس دوران طالبان کے رہنما ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ نے بھی اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ”ہم اقتدار پر مکمل قبضہ نہیں کرنا چاہتے، ہمارا جہاد قبضے کو ختم کرنے اور ایک خالص اسلامی نظام کے قیام کے لیے رہا ہے۔ اور ہم اپنی مجاہد اور ناراض قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔"  ملا ہیبت اللہ نے اپنے پیغام میں امریکا کے ساتھ معاہدے پر دستخط اور بین الافغان مذاکرات کی کوششوں سے اتفاق کا اظہار کیا۔

خیال رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان رواں سال 29 فروری کو دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو اور اس کے بدلے میں طالبان نے حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کرنے سے اتفاق کیا تھا۔ حالانکہ اس معاہدہ پر 10مارچ تک عمل درآمد مکمل ہونا تھا لیکن متعدد اسباب کی وجہ سے یہ کافی سست روی سے آگے بڑھا۔ بہر حال یہ عمل اب تکمیل کے قریب ہے۔  اس دوران امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اور طالبان رہنماوں سے ملاقات کی ہے اور جنگ بندی میں توسیع پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

دریں اثنا افغانستان کے مشرقی صوبہ لوگر کے پلی عالم شہر میں آج اس وقت کار بم دھماکہ ہوا جب لوگ عیدالاضحی کی خریداری میں مصروف تھے۔  اس دھماکے میں 17افراد ہلاک اور 21 دیگر زخمی ہوگئے۔ طالبان نے اپنے بیان میں کار بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔

 اقوام متحدہ کے افغانستان مشن نے اس ہفتہ جاری اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس سال کے ابتدائی چھ ماہ میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان جنگ میں تقریباً 1300 شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔

ج ا/  ص ز  (اے ایف پی)

افغانستان میں طالبان کی قیادت میں زندگی کیسی ؟

03:50

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں