1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان، جرمن فوج کا انخلاء: ایک بڑا چیلنج

نبیلا کریمی/ کے ایم29 جولائی 2013

سکیورٹی کی وجوہات کی بناء پر مزار شریف سے فوجی قافلے کے انخلاء کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

وفاقی جرمن فوج کے دستے ایک عرصے سے مختلف غیر ملکوں میں تعینات رہے ہیں اور انہیں ان ذمہ داریوں کا کافی تجربہ بھی ہے تاہم افغانستان میں ایک طویل تعیناتی کے بعد وہاں سے نکلنا جرمن فوج کے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ خاص طور سے فوجی ساز و سامان کا انخلاء۔ جرمن فوج کے مطابق 2014ء کے اواخر تک افغانستان سے جرمن فوج کی قریب 1200 بکتر بند گاڑیوں، اسلحہ جات، گولہ بارود، کمپیوٹرز اور دیگر ساز و سامان سے لدے 4800 کنٹینرز کو جرمنی پہنچانے کا اہم کام مکمل کرنا ہے۔ اس حوالے سے نبیلا کریمی کی تحریر کردہ رپورٹ سنتے ہیں، کشور مصطفیٰ سے۔

شمالی افغانستان میں فیض آباد میں قائم قدرے چھوٹے جرمن فوجی اڈے کو خالی کرنے اور وہاں کے ساز و سامان کو جرمنی منتقل کرنے کا کام گزشتہ مہینے ہی مکمل کر لیا گیا تھا۔ اُدھر قندوز میں بھی جرمن فوجی انخلاء کی تیاریاں مکمل کر چُکے ہیں۔ جرمن فوج شمالی افغانستان سے انخلاء کا کام موسم سرما  کے آنے سے پہلے پہلے مکمل کر لینا چاہتی ہے کیونکہ سردیوں میں موسم کی خرابی کے سبب انخلاء کا عمل مزید دشوار ہو جائے گا۔

قندوز میں بھی جرمن فوجی تعینات ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن فوج کا مرکزی اڈہ      

دریں اثناء اس علاقے سے جرمن فوجی گاڑیاں نکلنا شروع ہو گئی ہیں اور فوجیوں کو اپنے ساز  وسامان کے ساتھ 5000 کلو میٹر کا فضائی سفر طے کرنا ہے۔ اس کے لیے پہلے انہیں گرد آلود سڑک پر 150 کلومیٹر کی مسافت طے کرتے ہوئے مزار شریف پہنچنا ہو گا، جہاں جرمن فوج کا مرکزی اڈہ ہے۔ سکیورٹی کی وجوہات کی بناء پر مزار شریف سے فوجی قافلے کے انخلاء کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ فوجی قافلوں کو بکتر بند گاڑیوں اور فضائی نگرانی میں وہاں سے نکالا جائے گا۔

افغانستان سے جرمن فوجی انخلاء کے سلسلے میں مزار شریف کو اہم ترین مقام تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں سے فوجی انخلاء کے انصرامی نوعیت کے چیلنجز کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے براہ راست کوئی سمندری راستہ نہیں نکلتا ہے چناچہ تمام ساز و سامان کے انخلاء کے لیے بحری جہاز کی بجائے متبادل ٹرانسپورٹ ذرائع کا سہارا لینا ہو گا۔ حساس نوعیت کا عسکری سامان، مثال کے طور پر بھاری ٹینک مال بردار ہوائی جہازوں کے ذریعے سیدھے مشرقی جرمن شہر لائپسگ پہنچایا جائے گا۔ وفاقی جرمن فوج فضائی ٹرانسپورٹ پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ 150 ملین یورو لگا رہی ہے۔

دیگر فوجی سامان تین مختلف رستوں سے افغانستان سے جرمنی واپس لایا جائے گا: پہلا ہے شمالی رُوٹ یعنی اُزبکستان، قزاقستان اور روس کے راستے ریل گاڑی کے ذریعے۔ دوسرا ہے جنوبی رُوٹ، جس میں خشکی کے راستے یا پھر ہوائی جہازوں کے ذریعے جنگی ساز و سامان پاکستان کے جنوبی بندرگاہی شہر کراچی پہنچایا جائے گا اور وہاں سے بحری جہازوں کے ذریعے جرمنی لایا جائے گا۔

فیض آباد میں قائم جرمن فوجی بیستصویر: picture-alliance/dpa

تیسرا راستہ جو اہم ترین یا مرکزی روٹ تصور کیا جاتا ہے، وہ ہے مزار شریف سے بحیرہ اسود پر قائم ترکی کے شمال مشرقی ساحلی شہر ترابزون تک کا، جہاں جرمنی نے فوجی انخلاء کے لیے ایک خصوصی مرکز قائم کر رکھا ہے۔ یہ فضائی راستہ اختیار کرتے ہوئے جرمن فوجی ساز وسامان مسافر بردار بحری جہازوں کے ذریعے باسفورس، جبل الطارق اور جرمن صوبے لوئر سکسینی کے بندرگاہی شہر ایمڈن پہنچایا جائے گا۔

کیا چھوڑا جائے، کیا واپس لانا لازمی ہے

ایسا بہت سا ساز و سامان بھی افغانستان میں موجود ہے، جسے اقتصادی، عسکری اور سیاسی وجوہات کے سبب واپس نہیں لایا جا سکتا۔ ’دوبارہ تعیناتی کی پلاننگ‘ وفاقی جرمن فوج کے لیے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ ایک ایک چیز کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ آیا اُسے واپس جرمنی لایا جائے یا افغان ساتھیوں کے لیے وہیں اُن کے ملک میں چھوڑ دیا جائے۔ قندوز میں جرمن فوج کے ایک کمانڈر یورک فرائی ہیر فون ریشنبرگ کے مطابق،’’فوجی اشیاء کی نقل و حرکت پر اخراجات بہت زیادہ آئیں گے اس لیے انہیں  قندوز میں ہی فروخت کر دیا جائے گا"۔ معاملہ محض فوجی سامان کا نہیں ہے، یہاں بات ہو رہی ہے اُس ساز و سامان کی، جسے غیر فوجی مقاصد کے لیے بروئے کار لایا  جا سکتا ہے، مثال کے طور پر جنریٹرز، پاور جنریٹرز اور فرنیچر وغیرہ۔

ایک جدید طرز کا ہسپتال، جس پر چھ ملین یورو کی لاگت آئی تھی، جزوی طور پر وہیں چھوڑ دیا جائے گا جبکہ اس کی چند اہم مشینیں اور طبی آلات وغیرہ کا ایک بڑا حصہ واپس جرمنی لایا جائے گا۔

نبیلا کریمی/ کے ایم

امجد علی 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں