افغانستان جنگ: بچوں کی ہلاکتوں میں پچیس فیصد اضافہ
6 فروری 2017افغانستان میں عام شہریوں کے تحفظ اور مسلح تنازع کے حوالے سے سن 2016ء کی سالانہ رپورٹ جاری کر دی گئی ہے، جس کے مطابق ماضی کی نسبت گزشتہ برس ہونے والے ہلاکت خیز واقعات اور پرتشدد کارروائیوں میں مجموعی طور پر تین فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
تاہم گزشتہ برس ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس 923 افغان بچے ہلاک ہوئے اور یہ ہلاکتیں سن 2015ء کے مقابلے میں پچیس فیصد زائد ہیں۔ اس کے ساتھ ہی زخمی ہونے والے بچوں کی تعداد میں بھی 23 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے افغانستان میں اس حوالے سے سن دو ہزار نو میں ریکارڈ جمع کرنا شروع کیا تھا اور تب سے لے کر اب تک یہ سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سن دو ہزار سولہ میں تشدد کے مختلف واقعات میں تقریباً گیارہ ہزار پانچ سو افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی تعداد تین ہزار چار سو اٹھانوے بتائی گئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد تقریباﹰ آٹھ ہزار رہی۔
ان ہلاکتوں کی بڑی وجہ داعش کے حملوں کے ساتھ ساتھ طالبان اور سکیورٹی فورسز کے مابین گنجان آباد علاقوں میں ہونے والی جھڑپیں تھیں۔ امریکی اور افغان فضائیہ کی کارروائیوں کی وجہ سے بھی تقریباﹰ دو سو پچاس افراد ہلاک جب کہ تین سو کے قریب زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ سے اشارہ ملتا ہے کہ افغانستان میں نیٹو مشن کے بعد سے پُرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس رپورٹ میں عام شہریوں کی اکسٹھ فیصد ہلاکتوں کا ذمہ دار حکومت کے خلاف لڑنے والے داعش اور طالبان ایسے گروپوں کو قرار دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق تفتیش کار یہ جاننے میں ناکام رہے ہیں کہ افغانستان میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں اڑتیس فیصد ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے۔
سن دو ہزار سولہ میں امریکی افواج کی طرف سے صرف ایک مرتبہ یہ ذمہ داری قبول کی گئی کہ ان کی فضائی بمباری میں عام شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔