افغانستان: جنگ سے تباہ شدہ گاؤں کو تعمیر کرنے کی کوشش
4 دسمبر 2021
جغرافیائی طور پر اسٹریٹیجک اہمیت رکھنے والا گاؤں آرزو جو وسطی شہر غزنی جانے والی سٹرک کے ساتھ واقع ہے، کئی سالوں تک جنگ کا میدان تھا۔
اشتہار
برسوں جاری جنگ سے تباہ ہونے والے افغان گاؤں آرزو میں معاشی بحران کے باعث یہاں کے رہائشی جاوید نے اپنا ذاتی گھر بنانے کی امید چھوڑ دی ہے۔ طالبان جنگجو اس چھوٹے سے گاؤں اور اس کے آس پاس حکومتی فورسز سے پانچ مرتبہ لڑائی کر چکے ہیں۔ جاوید کے مطابق،''دن رات فائرنگ ہو رہی تھی اور ہمارا گھر فائرنگ کے درمیان تھا۔''جاوید نے وہ سرنگ دکھائی جو کہ طالبان نے اس سال اس کے گھر کے بیچ میں کھودی تھی تاکہ اسے لڑائی میں استعمال کیا جاسکے۔ جاوید اور ان کا خاندان اب بھی اپنے رشتہ دار کے گھر پناہ لیے ہوئے ہے۔ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اپنے گھر کی تعمیر نو کر سکے۔
اپنی دکان کے کاروبار کو ایک مرتبہ پھر چلانے کے لیے وہ پہلے ہی قریب سولہ سو یورو کے قرض دار ہیں۔ جاوید چاہتے ہیں کہ کوئی غیر سرکاری تنظیم یا حکومت ان کی مدد کرے۔ اس سال شدید جنگ کا مقابلہ کرنے کے بعد آرزو گاؤں میں بچے چند رہائشی بھی جون میں اپنے گھروں کو چھوڑ گئے تھے۔ دو ماہ بعد، افغانستان طالبان کے قبضے میں چلا گیا تھا اور عالمی برادری کی طرف سے افغانستان کے امدادی فنڈز کو منجمد کرنےسے معاشی بحران پیدا ہو گیا۔ اس مشکل کے ساتھ ساتھ تباہ کن خشک سالی نے خوراک کی سنگین قلت بھی پیدا کر دی۔
آرزو جیسے دیہی علاقوں کو دو دہائیوں پر محیط افغانستان میں جاری تنازعے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ نیٹو، امریکی فوجیوں ، افغان حکومت اور طالبان کے مابین جاری جنگ میں ہزاروں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
امن کے قیام کے ساتھ اب کچھ خاندان آہستہ آہستہ آرزو کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں اور اپنے گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
طالبان کے راج ميں زندگی: داڑھی، برقعہ اور نماز
افغانستان ميں طالبان کی حکومت کے قيام سے ايک طرف تو بين الاقوامی سطح پر سفارت کاری کا بازار گرم ہے تو دوسری جانب ملک کے اندر ايک عام آدمی کی زندگی بالکل تبديل ہو کر رہ گئی ہے۔ آج کے افغانستان ميں زندگی کی جھلکياں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
برقعہ لازم نہيں مگر لازمی
افغانستان ميں فی الحال عورتوں کے ليے برقعہ لازمی قرار نہيں ديا گيا ہے تاہم اکثريتی خواتين نے خوف اور منفی رد عمل کی وجہ برقعہ پہننا شروع کر ديا ہے۔ طالبان سخت گير اسلامی نظريات کے حامل ہيں اور ان کی حکومت ميں آزادانہ يا مغربی طرز کے لباس کا تو تصور تک نہيں۔ تصوير ميں دو خواتين اپنے بچوں کے ہمراہ ايک مارکيٹ ميں پرانے کپڑے خريد رہی ہيں۔
تصویر: Felipe Dana/AP Photo/picture alliance
داڑھی کٹوانے پر پابندی
طالبان نے حکم جاری کيا ہے کہ حجام داڑھياں نہ کاٹيں۔ يہ قانون ابھی صوبہ ہلمند ميں نافذ کر ديا گيا ہے۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ آيا اس پر ملک گير سطح پر عملدرآمد ہو گا۔ سن 1996 سے سن 2001 تک طالبان کے سابقہ دور ميں بھی مردوں کے داڑھياں ترشوانے پر پابندی عائد تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Usyan
سڑکوں اور بازاروں ميں طالبان کا راج
طالبان کی کابل اور ديگر حصوں پر چڑھائی کے فوری بعد افراتفری کا سماں تھا تاہم اب معاملات سنبھل گئے ہيں۔ بازاروں ميں گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے۔ يہ کابل شہر کا پرانا حصہ ہے، جہاں خريداروں اور دکانداروں کا رش لگا رہتا ہے۔ ليکن ساتھ ہی ہر جگہ بندوقيں لٹکائے طالبان بھی پھرتے رہتے ہيں اور اگر کچھ بھی ان کی مرضی کے تحت نہ ہو، تو وہ فوری طور پر مداخلت کرتے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
خواتين کے حقوق کی صورتحال غير واضح
بيوٹی پارلرز کے باہر لگی تصاوير ہوں يا اشتہارات، طالبان کو اس طرح خواتين کی تصاوير بالکل قبول نہيں۔ ملک بھر سے ايسی تصاوير ہٹا يا چھپا دی گئی ہيں۔ افغانستان ميں طالبان کی آمد کے بعد سے خواتين کے حقوق کی صورتحال بالخصوص غير واضح ہے۔ چند مظاہروں کے دوران خواتين پر تشدد بھی کيا گيا۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
بچياں سيکنڈری اسکولوں و يونيورسٹيوں سے غائب
افغان طالبان نے پرائمری اسکولوں ميں تو لڑکيوں کو تعليم کی اجازت دے دی ہے مگر سيکنڈری اسکولوں میں بچياں ابھی تک جانا شروع نہیں ہوئیں ہيں۔ پرائمری اسکولوں ميں بھی لڑکوں اور لڑکيوں کو عليحدہ عليحدہ پردے کے ساتھ بٹھايا جاتا ہے۔ کافی تنقيد کے بعد طالبان نے چند روز قبل بيان جاری کيا تھا کہ سيکنڈری اسکولوں اور يونيورسٹيوں ميں لڑکيوں کی واپسی کے معاملے پر جلد فيصلہ کيا جائے گا۔
تصویر: Felipe Dana/AP Photo/picture alliance
کھيل کے ميدانوں سے بھی لڑکياں غير حاضر
کرکٹ افغانستان ميں بھی مقبول ہے۔ اس تصوير ميں کابل کے چمن ہوزاری پارک ميں بچے کرکٹ کھيل رہے ہيں۔ خواتين کو کسی کھيل ميں شرکت کی اجازت نہيں۔ خواتين کھلاڑی وطن چھوڑ کر ديگر ملکوں ميں پناہ لے چکی ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
بے روزگاری عروج پر
افغانستان کو شديد اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ اس ملک کے ستر فيصد اخراجات بيرونی امداد سے پورے ہوتے تھے۔ یہ اب معطل ہو چکے ہیں۔ ايسے ميں افراط زر مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ يوميہ اجرت پر کام کرنے والے يہ مزدور بيکار بيٹھے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
نماز اور عبادت، زندگی کا اہم حصہ
جمعے کی نماز کا منظر۔ مسلمانوں کے ليے جمعہ اہم دن ہوتا ہے اور جمعے کی نماز کو بھی خصوصی اہميت حاصل ہے۔ اس تصوير ميں بچی بھی دکھائی دے رہی ہے، جو جوتے صاف کر کے روزگار کماتی ہے۔ وہ منتظر ہے کہ نمازی نماز ختم کريں اور اس سے اپنے جوتے صاف کرائيں اور وہ چار پيسے کما سکے۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
عام شہری پريشان، طالبان خوش
عام افغان شہری ايک عجيب کشمکش ميں مبتلا ہے مگر طالبان اکثر لطف اندوز ہوتے دکھائی ديتے ہيں۔ اس تصوير ميں طالبان ايک اسپيڈ بوٹ ميں سیر کر کے خوش ہو رہے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
9 تصاویر1 | 9
آرزو گاؤں کی 55 سالہ لیلوما افغان فورسز اور باغیوں کے درمیان ہونے والی فائرنگ میں اپنی بیٹی سے محروم ہوگئیں۔ ان کے شوہر سر میں گولی لگنے سے بچ تو گئے، لیکن وہ اب کام نہیں کر سکتے۔ پہلی مرتبہ جب ان کا گھر لڑائی میں تباہ ہوا تو انہوں نے اسے دوبارہ تعمیر کر لیا لیکن اس بار ان کے پاس اپنے گھر کی مرمت کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
پینسٹھ سالہ رفیع اللہ، جو مقامی گرلز سکول میں استاد تھے، ان کی بیٹی جنگ کے دوران گولی لگنے سے ہلاک ہو گئی تھی۔ اگرچہ اسکول نے دوبارہ کلاسز شروع کر دی ہیں، اور رفیع اللہ اپنے طالب علموں کے ساتھ دوبارہ مل کر خوشی منانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اپنی اولاد کو کھو دینے سے وہ شدید غمزدہ ہیں۔ اسکول کا نیلا گیٹ گولیوں کے درجنوں سوراخوں سے چھلنی ہے، کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، اور دیواریں گولے بارود سے داغدار ہیں۔ حالیہ جنگ میں اس گاؤں کے 40 شہری ہلاک ہوئے تھے۔
گاؤں کے رہائشی نقیب احمد کہتے ہیں، "ہم اب (فصل) کاشت نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنے مویشی استعمال کر سکتے ہیں، وہ اب ختم ہو چکے ہیں ۔ ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں رہا ۔" موسم سرما کے لیے خوراک کے کوئی ذخائر نہ ہونے کے باعث، کچھ لوگ غزنی یا پاکستان اور ایران میں دیہاڑی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ صرف حکومتی مدد یا بین الاقوامی امداد حاصل کرنے کے لیے پر امید ہیں۔ احمد کہتے ہیں، "ہمارے پاس زندہ رہنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ بہت سے خاندانوں پر قرض ہے اور وہ انہیں واپس نہیں کر سکتے۔''