افغانستان: خواتین کے حقوق کے لیے طالبان کا نیا حکم نامہ
3 دسمبر 2021
افغانستان میں طالبان خود کو خواتین کے حقوق کے حامیوں کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغان طالبان کی جانب سے خواتین کے حقوق کے لیے نئے اصول واضح کیے گئے ہیں۔ تاہم ان اصولوں کو عملی طور پر نافذ کرنا ابھی باقی ہے۔
اشتہار
افغانستان میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے عسکریت پسند گروہ طالبان شدید دباؤ کا شکار ہے۔ کیونکہ، بین الاقوامی ڈونر ممالک نے ترقیاتی فنڈز کی ادائیگی روک دی اور افغانستان کے اربوں ڈالر کے مالی اثاثوں تک رسائی روک دی گئی۔ مالی امداد کی بحالی کو خواتین کے حقوق کے نفاذ سے مشروط کردیا گیا۔
عورت ایک آزاد انسان ہے
آخر کار طالبان نے خواتین کے بعض حقوق کے احترام کی حمایت کر دی ہے۔ طالبان نے ایک حکم نامے میں ملک کی بعض تنظیموں، مذہبی اسکالرز اور عمائدین کو خواتین کے حقوق کے نفاذ کے لیے سنجیدہ اقدام کرنے کا حکم دیا ہے۔ تاہم نئے اعلامیے میں افغان خواتین کے لیے تعلیم، ملازمت اور روزگار کے حقوق کے بارے میں واضح ذکر نہیں کیا گیا۔
انتہا پسندی نے قبائلی خواتین کو کیسے متاثر کیا؟
افغان سرحد سے متصل پاکستانی ضلع مہمند کی رہائشی پچپن سالہ خاتون بصوالیحہ جنگجوؤں کی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے اپنے شوہر اور بیٹے کو کھو چکی ہیں۔ اب خطرہ ہے کہ طالبان ایک مرتبہ پھر اس علاقے میں قدم جما سکتے ہیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
سخت اور کٹھن زندگی
پاکستانی قبائلی علاقوں کی خواتین کے لیے زندگی مشکل ہی ہوتی ہے۔ ضلع مہمند کے گاؤں غلنی کی باسی پچپن سالہ بصوالیحہ کی زندگی اس وقت مزید اجیرن ہو گئی، جب سن 2009 میں اس کا بیٹا اور ایک برس بعد اس کا شوہر جنگجوؤں کے حملے میں ہلاک ہو گئے۔ سن2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان کا یہ علاقہ بھی طالبان کی کارروائیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہوا تھا۔
تصویر: Saba Rehman/DW
ہر طرف سے حملے
بصوالیحہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کا تئیس سالہ بیٹا مقامی امن کمیٹی کے ایما پر ہلاک کیا گیا۔ طالبان مخالف مقامی جنگجو گروپ کو شک ہو گیا تھا کہ وہ طالبان کو تعاون فراہم کر رہا تھا۔ پاکستانی فوج کے عسکری آپریشن کے بعد اس علاقے میں قیام امن کی امید ہوئی تھی لیکن اب افغانستان میں سکیورٹی کی بگڑتی صورتحال کے باعث اس سرحدی علاقے میں طالبان کی واپسی کا خطرہ ہے۔
تصویر: dapd
پرتشدد دور
بصوالیحہ کا شوہر عبدالغفران چھ دسمبر سن2010 کو ایک سرکاری عمارت میں ہوئے دوہرے خود کش حملے میں مارا گیا تھا۔ وہ وہاں اپنے بیٹے کی ہلاکت کے لیے سرکاری طور پر ملنے والی امدادی رقم لینے کی خاطر گیا تھا۔ بصوالیحہ کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں کسی محرم مرد کی عدم موجودگی عورت کی زندگی انتہائی مشکل بنا دیتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
امید نہیں ٹوٹی
اب بصوالیحہ انتہائی مشکل سے اپنا گزارہ کرتی ہیں۔ ان کے گاؤں میں بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں۔ وہاں گیس، بجلی اور انٹرنیٹ کی فراہمی میں بھی مسائل ہیں۔ تاہم بصوالیحہ اب تک پرعزم ہیں۔ انہوں نے سرکاری امداد لینا بھی چھوڑ دی تھی، جو دس ہزار روپے ماہانا بنتی تھی۔ تاہم سن 2014 میں حکومت نے یہ امدادی سلسلہ بھی روک دیا تھا۔
تصویر: Saba Rehman/DW
سلائی کڑھائی سے آمدنی
بصوالیحہ چاہتی ہیں کہ ان کے بچیاں اچھی تعلیم حاصل کریں۔ ڈی ڈؓبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ خود کو بے کار تصور کرنے لگیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس معاشرے میں اپنی بقا کھو دیں گی۔ اگرچہ وہ سلائی کڑھائی کا کام جانتی ہیں لیکن خاتون ہونے کی وجہ سے وہ مہمند ایجنسی کی کسی بھی دکان پر بغیر مرد کے نہیں جا سکتیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
محرم مرد کے بغیر کچھ نہیں
بصوالیحہ کے بقول شوہر کی موت کے بعد وہ تندور چلانے لگیں جہاں ان کی چھوٹی بیٹیاں روٹیاں فروخت کرتی تھیں لیکن اب وہ بالغ ہو چکی ہیں اور اس علاقے میں لڑکیاں اس طرح آزادانہ یہ کام نہیں کر سکتیں۔ اس لیے انہوں نے اب یہ کام چھوڑ کر سلائی کڑھائی کا کام شروع کیا۔ محرم مرد کی عدم موجودگی کے باعث وہ بازار میں یہ مصنوعات فروخت نہیں کر سکتیں، اس لیے وہ انہیں مقامی مردوں کو کم داموں پر فروخت کرتی ہیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
مزید تشدد کا خطرہ؟
پاکستان کے شمالی اور شمال مغربی علاقوں میں ہزاروں گھرانے ایسے ہیں، جو اسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔ بصوالیحہ کے برادر نسبتی عبدالرزاق کے بقول انہیں اب تک یاد ہے، جب ان کے بھائی حملوں میں مارے گئے تھے۔ وہ دعا گو ہیں کہ مستقبل میں ایسا دور دوبارہ دیکھنے کو نہ ملے، جب طالبان کا تشدد عروج پر تھا۔ تاہم ان کے بقول اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
تصویر: Saba Rehman/DW
7 تصاویر1 | 7
اعلامیے کے چند نکات:
عورت جائیداد نہیں بلکہ ایک عظیم اور آزاد شخص ہے۔
کوئی بھی غیر شادی شدہ عورت یا بیوہ کو شادی کے لیے مجبور نہ کرے۔
دشمنی ختم کرنے یا صلح کرنے کے لیے خواتین کا تبادلہ نہ کیا جائے۔
بیوہ خواتین کو وراثت میں حصے اور دوبارہ شادی کا حق دیا جائے۔
اعلامیے میں عدالت سمیت دو وزارتوں، ثقافت اور اطلاعات کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان حقوق کی عوامی سطح پر تشہیر ہو اور ان پر عمل درآمد کیا جائے۔
طالبان نے افغانستان کا دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد خواتین کے حقوق میں نمایاں کمی کی تھی۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے سڑکوں پر کیے جانے والے احتجاج کو پرتشدد طریقے سے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ بہت سی خواتین اپنی ملازمت پر واپس نہیں جا سکیں۔ زیادہ تر لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بھی بند کردیے گئے۔
افغانستان میں خواتین کا مستقبل اور پاکستانی خواتین
03:01
افغانستان میں سن 1996 سے سن 2001 تک اپنے سابقہ دور حکومت کے دوران، طالبان نے خواتین کو کسی مرد رشتہ دار کے بغیر گھر سے باہر جانے سے منع کر رکھا تھا۔ خواتین اور لڑکیوں کے لیے سر اور جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنا لازمی تھا۔ اس دوران لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا بھی کوئی حق نہیں تھا۔