1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

زعفران کے کاروبار سے منسلک افغان خواتین طالبان سے پریشان

27 ستمبر 2021

افغانستان میں زعفران کی فصلوں میں کام کرنے والی ہزاروں محنت کش خواتین طالبان کے سامنے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا چاہتی ہیں۔

افغانستان میں زعفران کے کاروبار سے منسلک خواتین طالبان سے پریشان
تصویر: Getty Images/H. Hashimi

افغانستان میں زعفران کے کاروبار سے منسلک خاتون شفیق عطائی کے زعفران کے کھیتوں پر کئی سو محنت کش خواتین کام کرتی ہیں ہیں۔ عطائی کہتی ہیں کہ طالبان انہیں خاموش نہیں کرا سکتے۔

 سخت گیر نظریات رکھنے والے طالبان نے رواں برس اگست کے وسط میں افغانستان پر قبضے  کے بعد سے خواتین کو عوامی سرگرمیوں سے ایک مرتبہ پھر دور رکھا ہے۔ ان حالات میں کاروبار کرنے والی کئی خواتین ملک چھوڑنے پر مجبور ہوچکی ہیں۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ طالبان کے موجودہ دور اقتدار میں افغان خواتین کو ماضی کی سختیوں کا دوبارہ سے سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

طالبان نے سن 1996 سے سن 2001  تک اپنے پہلے دور حکومت میں خواتین پر مختلف قسم کی پابندیاں  عائد کی ہوئی تھیں، جن کی وجہ سے ان پر تعلیم، ملازمت اور کاروبار کے دروازے بند ہو گئے تھے۔ اس دوران افغان خواتین کو کسی مرد رشتہ دار کے ساتھ ہی گھر سے باہر جانے کی اجازت ہوتی تھی۔

زعفران - 'سرخ سونا‘

شفیق عطائی نے سن 2007 میں افغانستان کے مغربی صوبے ہرات میں 'پشتون زرغون زعفران وومین کمپنی‘ کے نام سے اپنے کاروبار کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ کمپنی اپنی ساٹھ ایکڑ زمین پر تقریباﹰ ایک ہزار خواتین ورکرز کی مدد سے دنیا کے مہنگے ترین مصالحے زعفران کی پیداوار، پراسیسنگ اور پیکیجنگ کرتی ہے۔ اس کے بعد زعفران کو بیرون ملک برآمد کیا جاتا ہے۔ عطائی کے بقول، ''چاہے کچھ بھی ہوجائے، ہم صرف گھروں پر نہیں بیٹھیں گے، کیونکہ ہم نے بہت محنت کی ہے۔‘‘

تصویر: DW/S. Tanha

زعفران کی فصلوں میں  مزدوری کرنے والی خواتین  اس کام کے ذریعے اپنے خاندان کی کفالت کرتی ہیں۔ عطائی کہتی ہیں کہ اس آمدن سے وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکتی ہیں، ان کے لیے اچھے کپڑے اور دیگر ضروری اشیاء خرید سکتی ہیں۔

چالیس سالہ شفیق عطائی کے بقول، ''ہم نے بہت محنت کی ہے اور ہم خاموشی سےنہیں بیٹھیں گے۔ وہ ہمیں نظرانداز کرنا بھی چاہییں، تب بھی ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔‘‘

افغانستان افیون اور ہیروئن کا دنیا کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے، جو کہ عالمی پیداوار کا 80 سے 90 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔ افغان زعفران کی پیداوار زیادہ تر ہرات صوبہ میں ہی کی جاتی ہے۔ فی کلو پانچ ہزار امریکی ڈالر سے زائد قیمت کے ساتھ زعفران دنیا کا مہنگا ترین مصالحہ ہے۔ اسے پکوان، پرفیوم، ادویات، چائے اور یہاں تک کہ  افروڈیسیاک یعنی جنسی عمل کی چاہ میں اضافے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ زعفران کو 'سرخ سونا‘ بھی کہا جاتا ہے۔

زعفران کی کاشت

افغانستان میں تپتی دھوپ میں اگائے جانے والے، عمدہ اور روشن جامنی زعفران کے پھولوں کی کٹائی اکتوبر اور نومبر میں کی جاتی ہے۔ ان فصلوں میں کام کرنے والی زیادہ تر مزدور کاشت کار خواتین کی عمر پچاس سے ساٹھ برس کے درمیان ہے۔ وہ صبح سویرے زعفران کے پھولوں کو خشک ہونے سے پہلے پہلے چننا شروع کردیتی ہیں۔ اس کے بعد وہ پھولوں کی پتیوں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دھاگے یا سِگما نکال لیتی ہیں۔ یہ انتہائی مہارت اور محنت طلب کام ہوتا ہے۔

تصویر: DW/S. Tanha

عطائی کو اپنے کاروبار کے مستقبل کے ساتھ ساتھ افغانستان بھر کی ایسی خواتین، جو تعلیم، روزگار اور حکومت میں نمائندگی کے بغیر ایک غیر یقینی صورتحال میں رہ رہی ہیں، کی فکر ستاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ پریشانی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ امارت اسلامی میں ان کے روزگار کو روکنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان کے بقول، ''انہوں [طالبان] نے خواتین کو اسکول اور یونیورسٹی جانے سے روک رکھا ہے، اور حکومت میں کوئی عہدہ بھی نہیں دیا۔ میں فکر مند ہوں کے آگے کیا ہوگا۔‘‘

افغانستان سے مغربی افواج کے انخلا کے بعد سے ایران اور ترکمانستان کی سرحد کے قریب واقع ہرات شہر سے بھی کاروبار کرنے والی کئی خواتین نقل مکانی کر چکی ہیں۔ شفیق عطائی کہتی ہیں کہ وہ بھی ملک چھوڑ کر جا سکتی ہیں لیکن یہ کرنے سے ان کی تمام محنت ضائع ہوجائے گی۔

ہرات کے چیمبر آف کامرس کے سربراہ یونس قاضی زادہ امید کرتے ہیں کہ  طالبان حکومت  ان خواتین کو واپس لوٹنے اور اپنی کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے کا سرکاری اعلان کرے۔ فی الحال عطائی کی کمپنی کا مستقبل شک و شبہات کا شکار ہے۔ قاضی کے بقول، ''ہم امید کرتے ہیں کہ اس ملک میں خواتین دوبارہ کاروبار کر سکیں۔‘‘

ع آ / ع ا (اے ایف پی)

افغانستان کی بہادر بیٹی سودا باہ کبیری

04:29

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں