افغانستان سے انخلاء کا جرمن منصوبہ
9 جنوری 2011جرمن وزیر خارجہ ہفتے کو پاکستان پہنچے جہاں انہوں نے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔ گیڈو ویسٹر ویلے نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسلام آباد حکومت کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا،’’ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان خطے کی سلامتی اور استحکام کے لئے ایک دوسرے سے قریبی تعاون کریں۔‘‘
مغربی ممالک افغانستان میں استحکام کے حوالے سے پاکستان کے ممکنہ کردار سے بخوبی آگاہ ہیں۔ طالبان سے مبینہ گہرے روابط کے حوالے سے اسلام آباد حکومت کو خطے سے متعلق سٹریٹیجک پالیسیوں میں خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔
حالیہ دورہ ء پاکستان میں جرمن وزیر خارجہ نے پاکستانی حکام کو یقین دلایا کہ ان کا ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو مزید تعاون فراہم کرے گا۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے فوج کے لئے جرمن ساز و سامان اور پاکستانی برآمدات کے لئے یورپی منڈیوں تک رسائی میں تعاون کی درخواست کی۔
جرمن وزیر خارجہ کی اسلام آباد میں موجودگی کے دوران ہی انکشاف ہوا کہ اس یورپی ملک نے رواں سال کے اواخر سے افغانستان سے فوجی انخلاء کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اس ضمن میں ایک تجویز تیار کی جاچکی ہے۔
جرمن وزارت دفاع اور خارجہ کے تحت تیار کردہ یہ مبینہ تجویز چانسلر انگیلا میرکل کی کابینہ کو باضابطہ طور پر اگلے ہفتے پیش کی جائے گی۔ روئٹرز کے مطابق یہ تجویز حتمی منظوری کے لئے 28 جنوری کو جرمن ایوان زیریں ’بُنڈس ٹاگ‘ میں پیش کی جائے گی۔
جرمنی افغان جنگ میں امریکہ کا تیسرا بڑا اتحادی ہے اور اس کے 4600 مستعد فوجی افغانستان میں متعین ہیں۔ یہ فوجی افغانستان کے شمالی صوبے قندوز میں برسرپیکار ہیں، جہاں گزشتہ ایک سال کے دوران شورش میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
جنگ سے تباہ حال افغانستان میں انسانی ہلاکتوں کے واقعات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ سال 700 سے زائد غیر ملکی فوجیوں کے علاوہ لگ بھگ ڈھائی ہزار شہریوں کی زندگیاں بھی بد امنی کی نذر ہوئیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: امتیاز احمد