افغانستان سے بے ہنگم فوجی انخلا، امریکی جائزہ رپورٹ اگلے ماہ
23 مارچ 2023
قومی سلامتی کی امریکی کونسل کے ترجمان کے مطابق افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کا جائزہ تقریباﹰ مکمل ہو چکا ہے اور ایک رپورٹ اگلے ماہ جاری کر دی جائے گی۔ اس رپورٹ کے خفیہ حصے کانگریس کی نگران کمیٹیوں کو دکھائے جائیں گے۔
اشتہار
واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس سے کیے گئے ایک اعلان میں کہا گیا کہ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کا جائزہ لیے جانے کا عمل تقریباﹰ مکمل ہو گیا ہے اور اس جائزے کے نتائج پر مبنی رپورٹ اپریل کے وسط میں جاری کر دی جائے گی۔
اس رپورٹ کا اجرا طویل عرصے سے تاخیر کا شکار ہے۔ اس کے جاری کیے جانے کے بعد امریکی کانگریس اور عوام اپنے طور پر اس حوالے سے معاملات کا تجزیہ کر سکیں گے کہ ہندوکش کی ریاست سے افراتفری میں مکمل کیے گئے فوجی انخلا اور امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے اختتامی مراحل میں کیا کچھ غلط ہوا تھا۔
امریکہ نے 2021ء میں دو دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد افغانستان سے اپنی فوج بڑے بےہنگم حالات میں واپس بلا لی تھی۔ اس انخلا کے ساتھ ہی افغانستان میں اس وقت کی ملکی حکومت اور فوج، جنہیں لمبے عرصے تک امریکی حمایت حاصل رہی تھی، کا دور عملاﹰ ختم ہو گیا تھا اور افغان طالبان دوبارہ اقتدار میں آ گئے تھے۔
اس فوجی انخلا کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے اس پورے عمل کا جائزہ لیے جانے کے احکامات جاری کر دیے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ جائزے میں افغانستان سے واشنگٹن کی فوجی واپسی کے تمام پہلوؤں کو پرکھا جائے۔
یہ جائزہ رپورٹ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کےایک سال بعد یعنی اگست 2022ءمیں جاری کی جانا تھی مگر تب تک متعلقہ امریکی ایجنسیاں اس حوالے سے اپنا کام مکمل نہیں کر پائی تھیں اور یوں اس رپورٹ کا اجرا مسلسل تاخیر کا شکار رہا۔
بائیس مارچ بدھ کے روز امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ جائزہ مرتب کرنے کا کام تقریباﹰ مکمل ہو چکا ہے اور بائیڈن انتظامیہ یہ رپورٹ اگلے ماہ جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں توقع ہے کہ ہم عوام کے لیے (اس تجزیے کے) نتائج اپریل کے وسط تک جاری کر دیں گے۔‘‘
جان کربی نے مزید کہا کہ اس رپورٹ کے وہ کلاسیفائیڈ یا خفیہ حصے جو عام لوگوں کے لیے جاری نہیں کیے جائیں گے، وہ امریکی کانگریس کی نگران کمیٹیوں کو دکھائے جائیں گے۔
افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد سے ہی بائیڈن مخالف اپوزیشن سیاسی جماعت ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی ایوان نمائندگان کے کئی منتخب اراکین حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ یہ جائزہ رپورٹ اور فوجی انخلا سے متعلق سرکاری گفتگو کے ریکارڈ پر مبنی متعلق دستاویزات بھی جاری کرے۔
اس وقت اس فوجی انخلا کے حوالے سے دو سطحوں پر تحقیقات جاری ہیں۔ ان میں سے ایک کی قیادت ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ریپبلکن سربراہ مائیک میکال کر رہے ہیں، جنہوں نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے جنوری میں متعلقہ دستاویزات کی فراہمی کی درخواست بھی کی تھی۔ کل بدھ کے روز میکال کو محکمہ خارجہ کی طرف سے ان دستاویزات کی پہلی کھیپ موصول ہو گئی تھی۔
آج تیئیس مارچ جمعرات کے روز بلنکن خارجہ امور کی اسی کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے اور امکان ہے کہ اس سماعت کے دوران ان سے افغانستان سے امریکی فوجی واپسی کے بارے میں بہت سخت سوالات پوچھے جائیں گے۔
م ا / م م (اے پی)
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔