افغانستان سے جرمن فوج کا انخلا، پارلیمانی کمیٹی تفتیش کرے گی
8 جولائی 2022
جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ کے ایک فیصلے کے مطابق افغانستان سے جرمن فوجی دستوں کی واپسی اور پھر وہاں سے شہری انخلا کے عمل اور اس میں خامیوں اور ممکنہ کوتاہیوں کی ایک پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے باقاعدہ چھان بین کی جائے گی۔
اشتہار
جرمن پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے اس معاملے کی جامع تفتیش اور حقائق کے تعین کی ذمے داری ایک پارلیمانی کمیٹی کو سونپنے کا فیصلہ جمعہ آٹھ جولائی کی صبح کیا۔ یہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی 12 منتخب عوامی نمائندوں پر مشتمل ہو گی۔
یہ کمیٹی پتہ چلائے گی کہ افغانستان میں کئی برسوں تک تعیناتی کے بعد ہندوکش کی اس ریاست سے جرمن فوجی دستوں کی حتمی واپسی اور اس کے بعد شروع ہونے والے شہری انخلا کے عمل میں تب کیا کیا غلطیاں ہوئی تھیں اور ان سے جرمنی مستقبل کے لیے کیا سبق سیکھ سکتا ہے۔
بنڈس ٹاگ کی اس کمیٹی کا سربراہ جرمن چانسلر اولاف شولس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان رالف اشٹیگنر کو بنایا گیا ہے۔
افغانستان ميں جرمن فوجیوں کا تجربہ کيسا رہا؟
03:00
انہوں نے اس کمیٹی کی تشکیل کے بعد کہا، ''ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم ممکنہ طور پر قصور وار افراد کی تلاش کریں۔ اس کے برعکس ہمارا فرض اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ وہ غلطیاں جو ظاہر ہے کی گئیں، انہیں مستقبل میں کبھی دہرایا نہ جائے۔‘‘
جرمن فوجی دستوں کی واپسی
جرمن حکومت نے افغانستان میں کئی برسوں سے تعینات وفاقی فوج کے دستے انہی دنوں کے دوران حتمی طور پر واپس بلا لیے تھے، جب گزشتہ برس موسم گرما میں افغانستان میں حالات ساری دنیا کو حیران کر دینے کی حد تک بدل گئے تھے اور قدامت پرست طالبان عسکریت پسند ایک بار پھر اقتدار میں آ گئے تھے۔
اس بارے میں چھان بین سے متعلق پارلیمانی قرارداد کی جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے علاوہ کرسچین ڈیموکریٹ اپوزیشن کی طرف سے بھی حمایت کی گئی۔
اس کمیٹی کی تشکیل اور اس کو سونپے گئے اختیارات کی صرف دو جماعتوں نے مخالفت کی۔ ان میں سے ایک تو بائیں بازو کی جماعت دی لِنکے تھی اور دوسری انتہائی دائیں بازو کی اسلام اور تارکین وطن کی مخالف عوامیت پسند جماعت اے ایف ڈی۔ ان دونوں جماعتوں کا کہنا تھا کہ صرف جلد بازی میں فوجی انخلا کے بجائے افغانستان میں جرمن فوجی مشن کے پورے عرصے کی چھان بین کی جانا چاہیے۔
جرمن پارلیمان کی یہ کمیٹی افغانستان سے متعلق اپنی چھان بین کو ایک خاص عرصے کے دوران پیش آنے والے واقعات تک ہی محدود رکھے گی۔ یہ عرصہ 29 فروری 2020ء کے روز دوحہ میں امریکی حکومت اور افغان طالبان کے مابین طے پانے والے معاہدے کے دن سے لے کر 31 ستمبر 2021ء تک پھیلا ہوا ہو گا، جب افغانستان سے آخری امریکی فوجی دستے کی حتمی واپسی کو بھی ٹھیک ایک مہینہ ہو گیا تھا۔
م م / ک م (اے ایف پی، ڈی پی اے)
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔