افغانستان سے دہشت گردی کے سبب ’سنگین خطرہ‘ لاحق ہے، پاکستان
11 دسمبر 2025
پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو آگاہ کیا ہے کہ افغان سرزمین سے اٹھنے والی دہشت گردی پاکستان کی سلامتی کے لیے ''سب سے بڑا اور سنگین خطرہ‘‘ ہے۔ سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورتِ حال پر بحث کے دوران پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے افغان طالبان پر الزام لگا یا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور انہیں سرحد پار آزادانہ کارروائیوں کی اجازت دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ''افغانستان ایک بار پھردہشت گرد گروہوں اور پراکسیز کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے، جس کے تباہ کن نتائج سب سے زیادہ اس کے پڑوسی ممالک، خصوصاً پاکستان، کو بھگتنے پڑ رہے ہیں‘‘۔
پاکستانی سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق عاصم افتخار نے کہا کہ داعش خراسان، القاعدہ، ٹی ٹی پی، ای ٹی آئی ایم، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ سمیت مختلف گروہ افغان سرزمین پر محفوظ ٹھکانے رکھتے ہیں، جہاں درجنوں کیمپ سرحد پار حملوں میں مدد دے رہے ہیں۔
ان کے مطابق مختلف گروہ ''مشترکہ تربیت، اسلحے کی غیر قانونی تجارت اور مربوط حملوں‘‘ میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔
عاصم افتخار نے ایک علاقائی ملک کا حوالے دیتے ہوئے کہا،''ایک موقع پرست اور بگاڑ پیدا کرنے والا ملک دہشت گرد گروہوں کو مالی، تکنیکی اور مادی مدد فراہم کر کے پاکستان کے خلاف کارروائیوں کو تیز کر رہا ہے۔‘‘ ان کا واضح اشارہ ہمسایہ ملک بھارت کی جانب تھا، جس کے طالبان سے تعلقات حالیہ برسوں میں بہتر ہوئے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین اکتوبر میں سرحدی جھڑپوں میں دونوں جانب سے کم ازکم ستر افراد مارے گئے تھے۔ اس کے بعد دوحہ میں مذاکرات کے نتیجے میں دونوں پڑوسیوں نے جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا، جو تاحال جاری ہے۔ تاہم اس دوران جھڑپیں بھی ہوئیں اور دونوں فریق ایک دوسرے پر سیز فائر کی خلاف ورزی کے الزامات بھی لگا تے آئے ہیں۔
پاکستانی مندوب کا کہنا تھا کہ گزشتہ چار برس میں پاکستان نے طالبان حکام سے بارہا بات چیت کی، مگر ''دہشت گرد گروہوں کے خلاف مؤثر اقدام کے بجائے، افغان سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں شدید اضافہ ہوا‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف رواں سال میں افغانستان سے سرحد پار کی جانے والی دہشت گردی کے نتیجے میں ''قریب 1,200 پاکستانی ہلاک ہوئے جبکہ 2022 سے اب تک 214 افغان دہشت گرد پاکستان میں آپریشنز کے دوران مارے جا چکے ہیں۔‘‘
انہوں نے واضح کیا کہ سرحدی کشیدگی براہِ راست دہشت گردی اور سکیورٹی سے جڑی ہوئی ہے اور پاکستان نے اقوام متحدہ کے افغانستان میں مشن یو این اے ایم اے سے مطالبہ کیا کہ وہ اس صورتِ حال کا غیر جانب دارانہ جائزہ پیش کرے۔
پاکستانی مندوب نے خبردار کیا کہ اگر طالبان نے دہشت گرد گروہوں کے خلاف ''ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدام‘‘ نہ اٹھائے تو پاکستان اپنے دفاع کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغان مہاجرین کی میزبانی کے باوجود، اب وقت ہے کہ افغان عوام ''وقار اور نظم‘‘ کے ساتھ اپنے ملک لوٹیں۔
طالبان کی خواتین اور بچیوں پر پابندیوں کو انہوں نے ''اسلامی روایات اور مسلم معاشروں کے اصولوں کے منافی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ پاکستان بین الاقوامی برادری کے انسانی حقوق سے متعلق تحفظات میں شریک ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا، ''افغانستان میں امن و استحکام کی خواہش کسی ملک کو پاکستان سے زیادہ نہیں،‘‘ اور طالبان سے کہا کہ وہ مکالمے کا سازگار ماحول پیدا کریں، پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات کو دور کریں اور ''انکاری کیفیت‘‘ سے باہر آئیں۔
دوسری جانب طالبان کا موقف رہا ہے کہ وہ پاکستان میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی میں ملوث نہیں اور انہوں نے اسلام آباد حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اندرون ملک سکیورٹی کی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے افغان طالبان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین