1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیپاکستان

ٹی ٹی پی ایک ’سنگین اور بڑھتا ہوا علاقائی خطرہ‘، اقوام متحدہ

جاوید اختر (اے پی پی اور دیگر پاکستانی میڈیا ادارے)
21 نومبر 2025

اقوام متحدہ نے بدھ کے روز خبردار کیا کہ افغانستان سے سرگرم کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان ایک 'سنگین اور بڑھتا ہوا علاقائی خطرہ‘ ہے۔ ادھر چین نے بلوچ لبریشن آرمی اور اس کی مجید بریگیڈ کو ممنوعہ تنظیم قرار دینے پر زور دیا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی نے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں متعدد ’ہائی پروفائل‘ حملے کیے ہیں، جن میں سے بعض میں بڑی تعداد میں جانی نقصان ہواتصویر: AP

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی القاعدہ پابندی کمیٹی نے بدھ کے روز خبردار کیا کہ افغانستان سے سرگرم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ایک 'سنگین خطرہ‘ ہے۔

اقوام متحدہ میں ڈنمارک کی نائب مستقل نمائندہ اور سلامتی کونسل کی القاعدہ پر پابندی کمیٹی کی سربراہ، سینڈرا جینسن لینڈی نے سلامتی کونسل کو پیش کی گئی رپورٹ میں کہا کہ ''تقریباً 6,000 جنگجوؤں پر مشتمل ت‍حریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ایک اور سنگین علاقائی خطرہ ہے، جسے افغانستان کے حکمران طالبان حکام کی جانب سے لاجسٹک اور خاطر خواہ مدد مل رہی ہے۔‘‘

داعش اور القاعدہ پابندیوں کی کمیٹی کی چیئر کی حیثیت سے 15 رکنی کونسل کے سامنے رپورٹ پیش کرتے ہوئے، سفیر لینڈی نے ٹی ٹی پی کو ''ایک سنگین اور بڑھتا ہوا علاقائی خطرہ‘‘ قرار دیا۔ اور کہا کہ اس دہشت گرد گروہ نے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں متعدد ’ہائی پروفائل‘ حملے کیے ہیں، ’’جن میں سے بعض میں بڑی تعداد میں جانی نقصان ہوا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس گروہ کا اثر و رسوخ خطے کی دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔

لینڈی نے کہا کہ داعش اور القاعدہ سے منسلک گروہ شام سے لے کر افریقہ تک اپنا دائرہ بڑھاتے جا رہے ہیں، اور عدم استحکام، کمزور حکمرانی اور کرپٹو کرنسی و سوشل میڈیا جیسی ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے فنڈز اکٹھا کر رہے ہیں، پیروکار بھرتی کر رہے ہیں اور پرتشدد پیغامات پھیلا رہے ہیں۔

سلامتی کونسل کو پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقریباً 6,000 جنگجوؤں پر مشتمل ت‍حریک طالبان پاکستان ایک سنگین علاقائی خطرہ ہےتصویر: Getty Images/AFP/C. Khan

پاکستان کا بیان

بریفنگ کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کے نمائندے عثمان جدون نے دہشت گردی کے خلاف اسلام آباد کی طویل جدوجہد کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے 80,000 سے زائد جانیں قربان کی ہیں اور افغان سرزمین سے کام کرنے والے گروہوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اربوں ڈالر کے معاشی نقصانات برداشت کیے ہیں۔

جدون نے کہا کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز داعش خراسان، ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی گروہوں کے ساتھ ساتھ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور اس کی مجید بریگیڈ کا بھی مقابلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جو ان کے مطابق افغان سرپرستی میں پھل پھول رہے ہیں اور جنہیں مبینہ طور پر پاکستان کے 'بنیادی مخالف‘ کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔

انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ  پابندیوں کے نظام میں زمینی حقائق کی مناسب عکاسی ہونی چاہیے اور تنظیموں کو فہرست میں شامل یا خارج کرنے کے فیصلے شفافیت کے ساتھ، سیاسی مصلحتوں سے پاک طریقے سے کیے جائیں۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ تمام زیرِ جائزہ اداروں کے لیے غیر جانبدارانہ طریقہ کار ضروری ہے۔

چین نے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے پابندیوں کی کمیٹی کے ارکان پر زور دیا کہ وہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور اس کی مجید بریگیڈ کو فہرست میں شامل کرنے کی منظوری دے۔ چین نے کہا کہ یہ اقدام ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف پختہ عزم کا واضح پیغام دے گا۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس کی طویل جدوجہد میں اب تک 80,000 سے زائد جانیں قربان ہو چکی ہیںتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

انسداد دہشت گردی کے لیے ایک منصفانہ اور عالمی میکانزم پر زور

پاکستانی نمائندے جدون نے کہا کہ اقوام متحدہ کے انسدادِ دہشت گردی نظام کے پاس دنیا بھر میں تشدد پسند دائیں بازو، انتہا پسند قوم پرست، زینوفوبک اور اسلاموفوبک گروہوں کو ممنوعہ تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا اختیار ہونا چاہیے، کیونکہ قابلِ اعتماد زیرو ٹالرنس فریم ورک کے لیے ایک منصفانہ اور عالمی میکانزم ضروری ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا یہ جائزہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان اور افغان طالبان حکمرانوں کے درمیان کشیدگی بدستور جاری ہے۔ اسلام آباد کا اصرار ہے کہ کابل اپنی سرزمین پر موجود ٹی ٹی پی کے نیٹ ورکس کو ختم کرے۔ جبکہ کابل کسی بھی دہشت گرد گروپ کی اعانت کرنے کے الزام کی تردید کرتا ہے۔

ترکی اور قطر کی ثالثی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات متعدد دور کے باوجود کسی پیش رفت کے بغیر ختم ہو گئے۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق اسلام آباد میں حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان نے سرحدی گزرگاہیں غیر معینہ مدت تک بند کر دی ہیں، جب تک کابل ٹی ٹی پی کے خلاف قابلِ تصدیق اور ناقابلِ واپسی اقدامات نہیں کرتا۔ اس صورت حال نے تجارت معطل کر دی ہے اور دونوں جانب ہزاروں ٹرک پھنسے ہوئے ہیں۔

کیا تحریک طالبان پاکستان کو افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے؟

03:16

This browser does not support the video element.

ادارت: صلاح الدین زین

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں