افغانستان سے فوجی انخلاء کے لیے امریکا کی اب ایک نئی شرط
13 اکتوبر 2020
امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون کے ایک اعلی ترین فوجی افسر کا کہنا ہے کہ افغانستان سے مزید امریکی فوجیوں کی واپسی کا انحصار تشدد میں کمی اور طالبان کے ساتھ فروری میں طے شدہ دیگر شرائط پرعملدرآمد پر ہوگا۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ امریکی افواج کرسمس تک افغانستان سے واپس لوٹ آئیں لیکن امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے پیر کے روز کہا کہ افغانستان سے بقیہ 4500 امریکی فوجیوں کا انخلاء طالبان کے حملوں میں کمی آنے اور کابل حکومت کے ساتھ ان کے امن مذاکرات کو آگے بڑھانے پر منحصر کرے گا۔
جنرل ملی نے امریکی سرکاری ریڈیو این پی آر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ”یہ پورا معاہدہ اور افواج کے انخلاء کے منصوبے حالات کے ساتھ مشروط ہیں۔"
جنرل ملی کا کہنا تھا کہ ”اہم بات یہ ہے کہ ہم اس جنگ کو ذمہ داری کے ساتھ اور سوچ سمجھ کر ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسا ان شرائط کے ساتھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو افغانستان میں امریکی قومی مفادات کی حفاظت کی ضمانت دیتی ہیں۔"
جنرل ملی کا کہنا تھا کہ فروری میں ہونے والے معاہدے کے بعد امریکی فوجیوں کی تعداد پہلے ہی بارہ ہزار سے کم کردی گئی ہے،اور اس میں مزید کمی کا انحصار طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت اور تشدد میں بڑے پیمانے پر کمی پر ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ” یہ صدر کا بھی فیصلہ تھا کہ فوجیوں کے انخلاء کو مشروط کیا جائے اوراس بات پر ہمیشہ اتفاق رہا ہے۔“
طالبان اور امریکا کی ڈیل سب کی کامیابی ہے، شاہ محمود قریشی
01:57
اعلی امریکی فوجی افسر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں کئی سال پہلے کے مقابلے میں تشدد کے واقعات میں کافی کمی آئی ہے، لیکن پچھلے چار پانچ مہینوں میں خاطر خواہ کمی نہیں دیکھی گئی۔
صورت حال مبہم
پینٹاگون نے اس انخلا کے بعد افغانستان میں نومبر تک فوجیوں کی تعداد 4500 کے قریب رکھنے کی توقع ظاہر کی ہے جبکہ اس سلسلے میں دوحہ میں ہونے والے امن مذاکرات پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔ لیکن اس حوالے سے واشنگٹن سے ملے جلے اشاروں نے صورت حال کو مبہم کر دیا ہے۔
اشتہار
صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ آئندہ سال کے اوائل تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 2500 کر دی جائے گی لیکن بدھ کے روز ٹرمپ نے 25 دسمبر تک تمام افواج کوواپس بلانے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا۔
افغانستان: ’’جنگ میں زندگی‘‘
ایرانی فوٹوگرافر مجید سعیدی کی تصویریں یہ بتاتی ہیں کی جنگ نے عام افغانیوں کی زندگیوں کو کس طرح متاثر کیا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
کھلونا نہیں
یہ کوئی کھلونا نہیں ہے۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے جنوب میں دو بچیاں مصنوعی بازو سے کھیل رہی ہیں۔ اس تصویر سے ایرانی فوٹوگرافر مجید سعیدی کی تصویروں کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
بہترین فوٹوگرافر
مجید سعیدی کی تصویریں خبروں کے پیچھے چھپی کہانیاں بیان کرتی ہیں۔ ایسی کہانیاں جو صرف خوف اور اذیتوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ سعیدی کو کئی دیگر انعامات کے علاوہ سن 2013 میں ’ورلڈ پریس فوٹو ایوارڈ‘ سے بھی نوازہ جا چکا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
بچوں کی دنیا
سعیدی کی زیادہ تر تصاویر میں بچوں کی زندگی اور ان کے درپیش مشکلات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ بچہ بارودی سرنگ کے پھٹنے کی وجہ سے اپنے دونوں بازوؤں سے محروم ہو گیا تھا۔
تصویر: Majid Saeedi
واضح نشانیاں
نہ صرف چہرے اور ان پر موجود زخموں کے نشانات بلکہ افغانستان کی تباہ حال عمارتیں بھی جنگ کی تاریخ بیان کرتی ہیں۔ گھروں کے کھنڈرات، ہر جگہ گولیوں کے سوراخوں اور تباہ شدہ عمارتوں سے جنگ کی تباہی عیاں ہو رہی ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
واضح تضاد
افغانستان کی خوبصورت سرزمین پر جگہ جگہ جنگ کے دوران ہونے والے تباہی بھی نمایاں ہے۔ ایک ہی جگہ پر خوبصورتی اور دل کو ہلا دینے والے خوفناک مناظر کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
نشے کی لت
نشے کی لت افغانستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ نوّے فیصد افیون پیدا کرنے والا ملک ہے اور یہاں نشے کے عادی افراد کی تعداد بھی اسی لحاظ سے زیادہ ہے۔ افغانستان میں نشے کی لت میں مبتلا بچوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے لیکن اقوام متحدہ کے اعداو شمار کے مطابق وہاں تین لاکھ بچے نشہ کرتے ہیں۔
تصویر: Majid Saeedi
پولیس پریڈ
کابل میں صبح سویرے پولیس پریڈ: گزشتہ کئی برسوں سے مغربی حکومتیں افغان پولیس کی تربیت کا عمل جاری رکھے ہوئی ہیں۔
تصویر: Majid Saeedi
افغان تعلیم
ایک مدرسے کے استاد سے سزا ملنے پر بچے کے چہرے پر درد دیکھا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں اسکولوں کا یکساں نظام موجود نہیں ہے۔ زیادہ تر بچوں کو معاشی حالات کی وجہ سے اسکولوں میں جانے کی بجائے کام کاج پر بھیجا جاتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
تعلیمی زوال
افغانستان میں سن 1979ء سے جاری ’خانہ جنگی‘ نے وہاں کے بچوں اور نوجوانوں کی صورتحال کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 72 فیصد مردوں اور 93 فیصد خواتین کے پاس اسکول کی سند نہیں ہے۔ مجموعی طور پر اس ملک کی 70 فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
برقعہ اور باربی
خواتین کے لیے مدد: ملائیشیا کی ایک غیر سرکاری تنظیم خواتین کو مقامی سطح پر گڑیا تیار کرنے کے کورسز کرواتی ہے۔ اس تربیت کا مقصد خواتین کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہیں تاکہ وہ اپنا خرچ خود اٹھا سکیں۔
تصویر: Majid Saeedi
پہلوانی کا شوق
افغانی ویٹ لفٹر ایک مقابلے کے بعد آرام کر رہا ہے۔ طالبان کے دور حکومت میں باڈی بلڈنگ جیسے کھیلوں پر سختی سے پابندی عائد تھی۔ یہ کھیل ایک مرتبہ پھر افغانستان بھر میں مقبول ہو رہا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
کھنڈرات میں فصل
گزشتہ تیس برسوں میں سویت یونین اور نیٹو افواج کی جنگ نے جگہ جگہ اپنے نشانات چھوڑے ہیں۔ افغانیوں کو روزانہ ان نشانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
لازمی مضمون قرآن
قرآن کو حفظ کرنے کے لیے انتہائی توجہ اور پرسکون ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ افغانستان کے جنوبی شہر میں ایک لڑکا قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے۔
تصویر: Majid Saeedi
مقبول کھیل
عوامی سطح پر جانوروں کے مقابلے افغان روایات کا لازمی جزو ہیں۔ ملک بھر میں مرغوں اور کتوں کے مقابلوں کا انعقاد کروایا جاتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
بند زندگی
افغانستان میں ذہنی طور پر بیمار افراد کو غیر انسانی حالات اور معاشرے سے الگ تھلگ ہو کر رہنا پڑتا ہے۔ مغربی شہر ہرات کے ایک پاگل خانے میں مریضوں کو زنجیروں میں باندھ کر رکھا گیا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
حقیقی ویرانی
اکرم کو بازوؤں کی بجائے دو مصنوعی اعضاء کا سہارا ہے۔ رات کو سوتے وقت وہ ان ’اعضاء‘ کو دیوار کے ساتھ لٹکا دیتا ہے۔ اکرم ان ہزاروں افغان بچوں میں سے ایک ہے، جن کے مقدر ایسے ہی ہیں۔ وہ مقدر جنہیں ایرانی فوٹو گرافر اپنی تصویروں کے ذریعے چہرے فراہم کر رہا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
فوٹو گرافر کا مشن
مجید سعیدی کے بقول شروع ہی سے ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ انسانی تشدد کو تصویروں کی مدد سے منظر عام پر لایا جائے۔ افغان جنگ کو موضوع بنانے کا خیال انہیں اس وقت آیا، جب وہ ریڈ کراس کے ساتھ کام کرتے ہوئے جنگ کے متاثرین سے ملے۔
تصویر: Maryam Ashrafi
17 تصاویر1 | 17
صدر ٹرمپ کا یہ بیان صدارتی انتخابات کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ایک مختصر مدت میں افواج کا انخلا افغان امن مذاکرات میں کابل حکومت کی پوزیشن کو کمزور کر سکتا ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی ایک شرط یہ تھی کہ طالبان شہری علاقوں پر حملے بند کردیں گے۔
تاہم گذشتہ ہفتے کے اواخر میں صوبہ ہلمند کے صدر مقام لشکر گاہ کے مضافات میں زبردست لڑائی شروع ہوئی اور امریکی فورسز نے طالبان جنگجوؤں پر فضائی حملے کیے۔
جنرل ملی نے مخصوص تعداد کی وضاحت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ فوجیوں کی تعداد میں کمی کا فیصلہ صدر ٹرمپ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ”ہم ان حالات پر اپنا بہترین فوجی مشورہ دے رہے ہیں تاکہ صدر باخبر رہ کے، سمجھ بوجھ کر اور ذمہ دارانہ فیصلہ کرسکیں۔"