پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے بے گھر ہو کر افغانستان میں پناہ لینے والے پاکستانی مہاجرین کی واپسی کا دوسرا مرحلہ آج پیر 26 فروری سے شروع ہوگیا ہے۔
اشتہار
اس مرحلے کے پہلے دن شمالی وزیر ستان کے پچاس خاندان افغانستان کے صوبہ خوست سے پاکستانی سرحد مقام غلام خان کے راستے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ شمالی وزیر ستان کی پولیٹیکل انتظامیہ نے ان متاثرین کے لیے غلام خان چیک پوسٹ کے قریب کیمپ قائم کیا ہے جہاں ابتدائی رجسٹریشن اور بچوں کو ویکسین کے بعد انہیں خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے علاقے بکا خیل میں بنائے گئے کیمپ میں منتقل کیا جائے گا۔
شمالی وزیر ستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کامران خان آفریدی نے ان متاثرین کو خوش آمدید کہا اور انہیں فراہم کی جانے والی سہولیات کا جائزہ لینے کے لے چیک پوسٹ کا دورہ کیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ان متاثرین کو بنوں میں قائم بکا خیل کیمپ پہنچایا جائیگا جس کے لیے انہیں مفت ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے گی۔ کیمپ میں چھ ماہ تک انہیں رہائش اور اشیا خورد و نوش فراہم کی جائی گی۔‘‘ آفریدی کے مطابق ان متاثرین کی واپسی افغان حکام سے کامیاب مذاکرات کی بدولت ہوئی ہے۔
پاکستانی مہاجرین کی واپسی کے اس دوسرے مرحلے کے دوران افغانستان سے چار ہزار تین سو انتیس خاندانوں کو غلام خان چیک پوسٹ کے راستے پاکستان واپس لایا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب کے دوران شمالی وزیر ستان سے تقریباﹰ ایک لاکھ افراد نے نقل مکانی کر کے افغانستان کے صوبہ خوست، پکتیکا اور پکتیا میں پناہ لی تھی۔ افغانستان کے صوبہ خوست کے’’ گلان‘‘ مہاجر کیمپ میں سولہ ہزار چار سو چوالیس مہاجرین رجسٹر کیے گئے تھے۔
اسی طرح پکتیکا میں اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے نے چھتیس ہزار پاکستانی مہاجرین کی بائیو میٹرک تصدیق کی تھی جبکہ صوبہ خوست میں اکیاون ہزار افراد کی تصدیق کی گئی تھی۔ پاکستان سے افغانستان جانے والے شمالی وزیر ستان کے قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد وہاں اپنے رشتہ داروں کے ہاں ٹھہری تھی۔
ان متاثرین کی امد اور دوبارہ بحالی کے حوالے سے فاٹا ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عادل خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پختونخوا کے ضلع بنوں کے بکا خیل نامی کیمپ میں ان متاثرین کی رہائش کا دروانیہ چھ ماہ تک ہوسکتا ہے۔ وہاں انہیں ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ رجسٹریشن کے مراحل کے بعد جب یہ لوگ اپنے گھروں میں واپس جائیں گے تو گھروں کے سروے کے بعد انہیں گھروں کی تعمیر و بحالی کے لیے ایک اور سروے کا اغاز کیا جا ئے گا۔‘‘
شمالی وزیرستان کے مہاجر بچوں کے لیے افغانستان میں اسکول
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہجرت کر کے افغان علاقے لمن جانے والے پاکستانی مہاجرین کے بچوں کے لیے قائم ایک اسکول کی تصاویر دیکھیے جو تفصیلات سمیت ایک مقامی صحافی اشتیاق محسود نے ڈی ڈبلیو کو ارسال کی ہیں۔
تصویر: I. Mahsud
اسکول کا بانی بھی پاکستانی مہاجر
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مہاجر محمد علی شاہ نے ( سفید لباس میں ملبوس ) افغان علاقے لمن میں پاکستانی پناہ گزین بچوں کے لیے ایک ٹینٹ اسکول قائم کیا ہے۔ محمد علی کا کہنا ہے کہ یہ اسکول اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کا تعلیمی مستقبل بچانے کے لیے قائم کیا گیا۔
تصویر: I. Mahsud
ساڑھے چار سو بچے زیر تعلیم
محمد علی شاہ کے بقول خیموں میں قائم کیے گئے اس اسکول میں شمالی وزیرستان کے قریب ساڑھے چار سو مہاجر بچوں کو چھٹی جماعت تک تعلیم دی جا رہی ہے۔
تصویر: I. Mahsud
ایک خیمے میں تین کلاسیں
اسکول کے بانی کا کہنا ہے کہ جگہ کی کمی کے باعث ایک خیمے میں تین کلاسوں کو پڑھانا پڑتا ہے۔ وسائل نہ ہونے کے سبب ان پناہ گزین بچوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: I. Mahsud
تعلیم کا شوق
اسکول میں زیر تعلیم چھٹی جماعت کے ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ وہ موسم کی شدت کی پروا کیے بغیر تعلیم حاصل کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں اپنے علاقے کی خدمت کر سکیں۔
تصویر: I. Mahsud
’افغان حکومت مدد کرے‘
محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی ہے۔ اُنہوں نے افغان حکومت اور اقوام متحدہ سے بچوں کی تعلیم میں معاونت کا مطالبہ بھی کیا۔
تصویر: I. Mahsud
’اسلام آباد اور کابل کے بچوں جیسی تعلیم‘
ایک اور طالب علم رفید خان نے کہا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اُنہیں بھی ویسی ہی تعلیمی سہولیات مہیا کی جائیں، جو اسلام آباد اور کابل کے بچوں کو حاصل ہیں۔
تصویر: I. Mahsud
کھیل کا میدان بھی ہے
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد کئی قبائلی خاندان ہجرت کر کے افغانستان چلے گئے تھے، جن میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں نے خیموں سے باہر کھیل کا میدان بھی بنا رکھا ہے۔
تصویر: I. Mahsud
اساتذہ بھی مہاجر
اس خیمہ اسکول میں پانچ اساتذہ بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ ان تمام اساتذہ کا تعلق بھی پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہے اور یہ بھی افغانستان میں پناہ گزین ہیں۔
تصویر: I. Mahsud
8 تصاویر1 | 8
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان نے شمالی وزیر ستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف آاپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سال 2014 کے دوران شمالی وزیر ستان کے زیادہ تر رہائشی قبائلی علاقوں سے ملحقہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں اور دیگر اضلاع میں منتقل ہوگئے تھے۔ اس آپریشن کے بعد علاقے کو کلیئر قرار دینے کے بعد ان کی واپسی شروع کی گئی۔ یہاں موجود آئی ڈی پیز واپس اپنے گھروں میں پہنچ گئے۔ تاہم افغانستان منتقل ہونے والے والے قبائلی خاندانوں کو واپس لانے میں وقت لگا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت پاکستان میں ستائیس ملین سے زائد افغان رہائش پذیر ہیں جن میں سے ایک بڑی تعداد غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہائش پذیر ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں ان کی قیام میں ساتویں بار توسیع کی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کو اگلے دوسال میں واپس بلا لیا جائے گا تاہم زیادہ ترافغان مہاجرین واپسی کے لیے تیار نہیں ہیں۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔