1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیایشیا

افغانستان سے ہونے والے حملے میں پانچ پاکستانی فوجی ہلاک

7 فروری 2022

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں پاکستانی فوج کی ایک چوکی کو افغانستان کے اندر سے نشانہ بنایا گیا۔ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی دستبرداری کے بعد سے ایسے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

Afghanistan Gefechte mit Taliban
تصویر: AA/picture alliance

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ایک بیان کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں سکیورٹی فورسز کی ایک چوکی پر افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں نے فائرنگ کی، جس میں کم از کم پانچ فوجی ہلاک ہو گئے۔

 بیان کے مطابق پاکستانی سکیورٹی فورسز نے بھی فائرنگ کا بھر پور جواب دیا جس میں شدت پسندوں کو بھی کافی نقصان اٹھانا پڑا، تاہم اس کی کسی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔

اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں نے افغانستان کے صوبہ خوست سے ملحقہ چیک پوسٹ انگور تنگی کو نشانہ بنایا اور سیکورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ شام کے تقریبا ًآٹھ بجے شروع ہوا اور کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔ اس حملے میں متعدد پاکستانی فوجیوں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

ایس پی آر کے بیان کے مطابق، فائرنگ کے تبادلے میں کراچی سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ لانس نائیک عجب نور، لکی مروت کے رہائشی 22 سالہ سپاہی ضیاء اللہ خان، کرک کے رہائشی 23 سالہ سپاہی ناہید اقبال، بنوں کے رہائشی 18 سالہ سپاہی سمیر اللہ خان اور بہاولنگر کے رہائشی 27 سالہ سپاہی ساجد علی ہلاک ہو گئے۔

تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں، گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان گزشتہ نومبر میں جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پا یا تھا، تاہم کچھ روز بعد ہی یہ ٹوٹ گیا اور اس کے بعد سے گروپ کی جانب سے حملوں میں تیزی آئی ہے۔

افغانستان سے منشیات پاکستان اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی

03:09

This browser does not support the video element.

حملے کی شدید مذمت 

پاکستانی فوج کی میڈیا ونگ، آئی ایس پی آر نے اتوار کے روز ایک بیان میں کہا، ''بین الاقوامی سرحد کی دوسری جانب افغانستان کے اندر سے عسکریت پسندوں نے ضلع کرم میں پاکستانی فوجیوں پر فائرنگ کی۔''

اس بیان میں مزید کہا گیا، ''دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کی، پاکستان شدید مذمت کرتا ہے اور توقع کرتا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت مستقبل میں پاکستان کے خلاف ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے گی۔'' 

پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی ایک بیان میں کہا، ''اپنے وعدوں کے مطابق، طالبان حکومت کو سرحد پار سے عسکریت پسندوں کے اس طرح کے حملوں کو روکنا چاہیے۔''

فوج کا کہنا تھا کہ افغانستان کے اندر سے شدت پسندوں نے پاک افغان سرحد پر باڑ کو نقصان پہنچانے کی بھی متعدد کوششیں کیں۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف ملکی سرحدوں کے دفاع کے لیے پر عزم ہے اور، 'ہمارے بہادر جوانوں کی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کریں گی۔‘

افغانستان میں امریکہ نواز اشرف غنی حکومت کے خاتمے اور گزشتہ سال اگست میں طالبان کی فتح کے بعد پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ حملوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم افغان حکومت نے اس بات کی تردید کی ہے کہ فائرنگ افغان سرزمین سے ہوئی تھی۔

افغانستان کی طالبان حکومت کے نائب ترجمان بلال کریمی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ''ہم دوسرے ممالک، خاص طور پر اپنے پڑوسیوں کو اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں،  کہ کسی کو بھی ان کے خلاف افغانستان کی سرزمین کے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔''

صوبہ خیبرپختونخوا کا ضلع کرم ماضی میں بھی تحریک طالبان کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے، تاہم گزشتہ کچھ برسوں سے یہاں حالات قدر ے پر امن رہے ہیں۔ اس ضلعے کا ایک حصہ افغان ریاست خوست سے ملتا ہے تو دوسرا سرا افغان ریاست ننگر ہار سے ملحق ہے۔

پاک افغان سرحد پر اس حملے سے چند روز قبل ہی باغیوں نے صوبہ بلوچستان میں دو حملے کیے تھے۔ پاکستانی فوج کے مطابق باغیوں کی طرف سے دو فوجی چوکیوں پر ہونے والے ان حملوں میں کم از کم 20 باغی اور نو فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ بدھ کے روز ہونے والے ان حملوں

 کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔

سکیورٹی حکام کے مطابق حالیہ ہفتوں میں پاکستان کے متعدد علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات اور ہدف بنا کر قتل کرنے جیسے حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور سکیورٹی فورسز کو خاص طور پر نہ صرف سرحدی علاقوں میں بلکہ شہروں میں بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)

’پاکستانی طالبان کی واپسی خطرناک ہو گی‘

03:45

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں