امریکی سنٹرل کمان نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلاء جاری ہے، اب تک 90 فیصد سے زیادہ انخلاء مکمل ہوچکا ہے۔ اورسات فوجی اڈے باضابطہ طور پر افغان وزارت دفاع کے حوالے کردیے گئے ہیں۔
اشتہار
امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تقریبا ً ایک ہزار سی۔17مال بردار طیاروں کے ذریعے فوجی سازو سامان افغانستان سے باہر منتقل کیا جاچکا ہے جبکہ بہت سارے فوجی آلات ٹھکانے لگانے کے لیے ڈیفنس لاجسٹکس ایجنسی کے حوالے کیے گئے ہیں۔
پنٹاگون کی طرف سے یہ اعلان امریکی صدر جو بائیڈن کے اس فیصلے کے چند ماہ بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کو گیارہ ستمبر تک نکال لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ نیٹو کے دیگر رکن ممالک بھی امریکا کے ساتھ تال میل کرکے اپنی اپنی فوج کو بڑی تیزی سے افغانستان سے نکال رہے ہیں۔
جرمنی نے اپنی تمام فوج کو افغانستان سے نکال لیا ہے۔ ایک جرمن سفارت کار نے منگل کے روز بتایا کہ شمالی افغانستان کے مزار شریف میں واقع اس کا قونصل خانہ بند کردیا گیا ہے۔
بگرام فوجی اڈہ خاموشی سے خالی کر دیا
گزشتہ ہفتے امریکا اور نیٹو کے تمام افواج نے افغانستان کا سب سے بڑا فوجی اڈہ بگرام ایئر بیس خالی کردیا تھا۔
اشتہار
افغان حکام نے دعوی کیا ہے کہ امریکی فوج انہیں کوئی اطلاع دیے اور فوجی اڈے کا نیا افغان کمانڈر مقرر کیے بغیر ایئر بیس چھوڑ کر چلے گئے۔ امریکی فوج کے جانے کے کے دو گھنٹے سے زائد وقت کے بعد اس کا پتہ چلا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس ایئرفیلڈ میں تقریباً پانچ ہزار قیدی بھی موجود ہیں جن میں سے بیشتر طالبان ہیں۔
اس سے پہلے افغان کمانڈر جنرل میر اسد کوہستانی نے کہا تھا کہ امریکی فوج رات کی تاریکی میں بتیاں بجھا کر بگرام بیس سے واپس چلی گئی، افغان حکام کو بھی دو گھنٹے بعد پتہ چلا۔
غیرملکی افواج کی واپسی شروع ہونے کے ساتھ ہی طالبان نے شمالی افغانستان اور ملک کے دیگر حصوں میں حکومتی فورسز کے ساتھ جنگ کے بعد متعدد اضلاع پر قبضے کرلیے ہیں۔
افغان فورسیز کا طالبان کی پیش قدمی روکنے کا عزم
افغان سکیورٹی فورسیز نے طالبان کے ذریعہ حال ہی میں قبضہ میں لیے گئے اضلاع کو دوباہ واپس لینے کے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔
افغانستان کے قومی سلامتی مشیر حمداللہ محب نے منگل کے روز نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”یہ جنگ ہے، یہ دباو ہے۔ بعض اوقات حالات ہمارے موافق ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات وہ ہمارے موافق نہیں ہوتے تاہم ہم افغان عوام کا دفاع کرتے رہیں گے۔"
انہوں نے مزید کہا،”ہم نے تمام اضلاع دوبارہ واپس لینے کا تہیہ کر رکھا ہے۔"
طالبان کے ساتھ زبردست جنگ کی وجہ سے پیر کے روز ہزاروں افغان فوجی پڑوسی ملک تاجکستان فرار ہو گئے۔ حالانکہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سیکورٹی اہلکار اب جنگ کے لیے واپس لوٹ رہے ہیں۔
امریکا کی رخصتی اور افغانستان میں بکھرا امریکی کاٹھ کباڑ
بگرام ایئر بیس قریب بیس برسوں تک امریکی فوج کا افغانستان میں ہیڈکوارٹرز رہا۔ اس کو رواں برس بہار میں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اب وہاں ٹنوں کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
تا حدِ نگاہ اسکریپ
امریکا کے افغانستان مشن کی سیاسی باقیات کا تعین وقت کرے گا لیکن اس کا بچا کھچا دھاتی اسکریپ اور کچرا ہے جو سارے افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ امریکا بگرام ایئر بیس کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کی بیسویں برسی پر خالی کر دے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
کچرا کہاں رکھا جائے؟
امریکی فوجی اپنے ہتھیار یا تو واپس لے جائیں گے یا مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ کر جائیں گے۔ اس میں زیادہ تر بیکار دھاتی کاٹھ کباڑ اور ضائع شدہ الیکٹرانک سامان شامل ہے۔ سن 2001 کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی بگرام ایئر بیس پر تعینات ہوئے۔ یہ بیس کابل سے ستر کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
ایک کا کاٹھ کباڑ دوسرے کے لیے قیمتی
بگرام بیس کے باہر جمع ہونے والا اسکریپ قسمت بنانے کے خواہش مند افراد کے لیے بہت اہم ہے۔ بے شمار افراد اس کاٹھ کباڑ میں سے مختلف اشیاء تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فوجی بوٹ وغیرہ۔ وہ ایسے سامان کو بیچ کر اپنے لیے پیسے حاصل بناتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
الیکٹرانک سامان کی تلاش
بگرام بیس کے باہر جمع اسکریپ کی بڑے ڈھیر میں سے لوگ الیکٹرانک سامان بھی ڈھونڈتے ہیں۔ ان میں سرکٹ بورڈ وغیرہ اہم ہیں۔ کچھ لوگ استعمال ہونے والی دھاتیں جیسا کہ تانبا وغیرہ کو بھی ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی تھوڑی مقدار میں سونا بھی مل جاتا ہے۔ امریکیوں کے لیے یہ کوڑا کرکٹ ہے لیکن افغان باشندوں کے لیے جو سالانہ محض پانچ سو یورو تک ہی کماتے ہیں، یہ واقعی ایک خزانہ ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
بگرام کس کے پاس جائے گا؟
بگرام کوہِ ہندوکش کے دامن میں ہے اور اس کی برسوں پرانی فوجی تاریخ ہے۔ سابقہ سوویت یونین کی فوج نے اس جگہ کو سن 1979 میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ افغان شہریوں کو خوف ہے کہ امریکی فوجیوں کی روانگی کے بعد یہ جگہ طالبان سنبھال لیں گے۔
تصویر: imago images
ایک پرخطر انخلا
غیر ملکی فوجیوں کا انخلا رواں برس پہلی مئی سے شروع ہے۔ ان کے پاس اسکریپ سنبھالنے کا وقت نہیں ایسے ہی بھاری ہتھیاروں کا معاملہ ہے۔ طالبان کے کسی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے اضافی فوجی ابھی بھی متعین ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد کے رکن اور پارٹنر 26 ممالک کے فوجی افغانستان میں تعینات رہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
خواتین بھی میدان میں
تصویر میں ایک لڑکی بگرام ایئر بیس کے باہر کاٹھ کباڑ سے ملنے والی دھاتوں کا ٹوکرا اٹھا کر جا رہی ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اس کام میں شریک ہیں۔ مشکل کام کے باوجود خواتین کو مالی فائدہ پہنچا ہے۔ یہ بالغ لڑکیاں اسکول بھی جاتی تھیں، اور اُن شعبوں میں بھی کام کرتی ہیں جو پہلے ممنوعہ تھے جیسے کہ عدالتیں اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
پیچھے رہ جانے والے لوگ
اس دھاتی اسکریپ کے ڈھیر کے آس پاس کئی اشیا بعض لوگوں کے لیے جذباتی وابستگی کی حامل بھی ہیں۔ اس بیس کے ارد گرد کئی بستیاں بھی آباد ہوئیں اور ان کی بقا بیس کے مکینوں پر تھی۔ اب بہت سے ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان گزر بسر کیسے کرے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
باقی کیا بچا؟
ہندوکش علاقے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بعد فوجی بوٹوں اور زنگ آلود تاروں کے علاوہ کیا باقی بچا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد افغانستان کے ساتھ پائیدار شراکت جاری رکھنے کا عندیہ ضرور دیا۔ اب لاکھوں افغان افراد جو بائیڈن کو اپنے وعدے کو وفا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
9 تصاویر1 | 9
ادھر تاجکستان نے افغانستان کے ساتھ ملحق اپنی سرحد کو محفوظ رکھنے کے لیے بیس ہزار فوج تعینات کردی ہے۔
خیال رہے کہ امریکا نے القاعدہ کے خلاف جنگ کے لیے سن 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ امریکا نائن الیون کے دہشت گردانہ حملے کے لیے القاعدہ کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ امریکا نے افغانستان پر حملے کے بعد طالبان کو اقتدار سے معزول کر دیا تھا اور ملک کی حفاظت کے لیے افغان سکیورٹی فورسیز اور پولیس کو تربیت دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا نے اس بیس سالہ جنگ کے دوران بیس کھرب ڈالر خرچ کردیے اور اس کے 2312 فوجی مارے گئے۔