1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: شہریوں کی ریکارڈ ہلاکتیں، ذمہ دار جنگجو

15 جولائی 2018

اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں اس برس عام شہریوں کی ریکارڈ تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ دو تہائی افغان شہری طالبان اور اسلامک اسٹیت جیسے دہشت گرد گروہوں کے حملوں میں ہلاک ہوئے۔

Afghanistan Selbstmordanschlag in Dschalalabad
تصویر: Reuters/Parwiz

افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے معاون مشن (یوناما) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس برس کی پہلی ششماہی کے دوران افغانستان میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی تعداد گزشتہ دس برسوں کے دوران اس عرصے ميں ہونے والی سب سے زيادہ ہلاکتيں ہيں۔

عالمی ادارے کی اس رپورت کے مطابق رواں برس جنوری سے لے کر جون کے اختتام تک جنگجو گروہوں اور حکومتی فورسز کے ہاتھوں ہلاک اور زخمی ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد ایک ہزار چھ سو بانوے رہی۔

گزشتہ برس کے مقابلے میں ان ہلاکتوں کی تعداد میں ایک فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یاد رہے کہ سن دو ہزار سترہ میں اس دورانیے میں ہونے والی ہلاکتیں گزشتہ نو برس کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھیں۔ گزشتہ مسلسل چار برسوں سے افغانستان میں ہر سال ایک ہزار سے زائد شہری لقمہ اجل بن رہے ہیں۔

رواں برس کی پہلی ششماہی میں زخمی ہونے والے شہریوں کی تعداد تین ہزار چار سو تیس نوٹ کی گئی، جو گزشتہ برس کے اسی دورانیے کے اعدادوشمار کے مطابق پانچ فیصد کم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ان شہری ہلاکتوں کی سب سے بڑی وجہ بم دھماکے بنے۔

بتایا گیا ہے کہ بم دھماکوں کی وجہ سے چار سو ستائیس افراد ہلاک جبکہ نو سو چھیاسی زخمی ہوئے۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں اس سال بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں بائیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران کیے گئے باون فیصد بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے پیچھے اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کا ہاتھ رہا۔ دیگر خونريز واقعات میں ایک سو ستاون شہری مارے گئے جبکہ تین سو ستاسی زخمی ہوئے۔

اس عرصے میں افغان فورسز کی طرف سے فضائی حملوں میں بھی اضافہ نوٹ کیا گیا، جو باون فیصد شہری ہلاکتوں کا سبب بنے۔ ان حملوں میں مجموعی طور پر ایک سو انچاس ہلاکتیں ہوئیں اور دو سو چار زخمی ہوئے۔

ع ب / ع س / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں