افغانستان: طالبان اور داعش کے مابین شدید لڑائی
24 اپریل 2019نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ان دونوں حریف عسکری گروہوں کے مابین مسلح لڑائی کا آغاز پیر کے روز اس وقت ہوا، جب داعش کے عسکریت پسندوں نے صوبہ ننگرہار کے اُن دیہات پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، جو طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔
مشرقی افغانستان میں واقع صوبے ننگرہار کی صوبائی کونسل کے رکن سہراب قدیری کا کہنا تھا، ’’داعش کے عسکریت پسندوں نے خوگیانی اور شیرزاد کے چھ دیہات پر قبضہ کر لیا ہے لیکن یہ لڑائی ابھی تک جاری ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس لڑائی کے نتیجے میں تقریباﹰ پانچ سو خاندان علاقہ چھوڑ گئے ہیں۔ دوسری جانب طالبان کی طرف سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
مشرقی افغانستان میں پہلی مرتبہ سن دو ہزار چودہ میں داعش کے عسکریت پسند منظر عام پر آئے تھے۔ اس وقت انہوں نے نہ صرف طالبان بلکہ حکومتی اور بین الاقوامی دستوں کے خلاف بھی مسلح کارروائیاں کی تھیں۔ طالبان کے سابق رہنما ملا عمر کی موت کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد طالبان کے کئی سابقہ عسکریت پسندوں نے داعش میں شمولیت اختیار کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس وقت شام اور عراق میں اس شدت پسند جہادی تنظیم کو پے در پے کامیابیاں مل رہی تھیں۔ داعش سے وابستہ افغان عسکریت پسند خود کو ’اسلامک اسٹیٹ خراسان‘ (آئی ایس آئی ایس۔ کے) کے ارکان قرار دیتے ہیں۔
افغان عسکریت پسندوں کا یہ گروہ اپنی سفاکانہ کارروائیوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ ماضی میں کئی افغان شہروں میں ہونے والے متعدد ہلاکت خیز حملوں کی ذمہ داری بھی یہی گروہ قبول کر چکا ہے۔
پاکستان کے ساتھ سرحد پر واقع افغان صوبے ننگرہار کے علاقوں کو داعش کے حامی عسکریت پسندوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن خوگیانی اور شیرزاد کے اضلاع میں متعدد دیہات طالبان کے زیر قبضہ ہیں۔
ضلع شیرزاد کے گاؤں مارکی کے چھتیس سالہ رہائشی شوکت کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں صرف اپنی فیملی کو بچانے میں کامیاب رہا ہوں۔ باقی سب کچھ ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔‘‘ صوبائی گورنر کے ترجمان عطااللہ خوگیانی کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقوں سے فرار ہو کر آنے والے باشندوں کو خوراک اور ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔
امریکی حکام کے مطابق افغانستان میں داعش کے تقریباﹰ دو ہزار عسکریت پسند موجود ہیں۔ گزشتہ برس اگست میں صوبے جوزجان میں طالبان کے ہاتھوں شکست کے بعد داعش کے تقریباﹰ ڈیڑھ عسکریت پسندوں نے خود کو افغان حکام کے حوالے کر دیا تھا۔
ا ا / م م ( اے ایف پی، ڈی پی اے)