1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

افغانستان: طالبان کے قبضے میں ایک ٹریلین ڈالر کے معدنی وسائل

21 اگست 2021

طالبان آج تک افیون اور ہیروئن کی تجارت سے فائدہ حاصل کرتے رہے ہیں۔ اب یہ عسکری گروہ ایک ایسے ملک پر حکومت کرنے جا رہا ہے جہاں ایسے قیمتی قدرتی معدنیات موجود ہیں، جن سے چین اپنی معیشت کو غیر معمولی ترقی دے سکتا ہے۔

افغانستان میں کان کنی
تصویر: Jawed Kargar/dpa/picture alliance

طالبان کو دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں ایک بہت بڑی مالی اور جیو پولیٹیکل برتری حاصل ہے کیونکہ اس عسکریت پسند گروہ نے ایک مرتبہ پھر افغانستان کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

سن 2010 میں امریکی فوجی ماہرین اور ماہرین ارضیات کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا تھا کہ افغانستان، جو بظاہر دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے، اس ملک میں تقریباﹰ ایک ٹریلین امریکی ڈالر کی مالیت کے معدنی وسائل  موجود ہیں، جس میں لوہے، تانبے، لیتھیم، کوبالٹ اور دیگر نایاب معدنی ذخائر شامل ہیں۔ تاہم گزشتہ ایک دہائی کے عرصے میں مسلسل پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے یہ وسائل اچھوت رہے ہیں۔

لیتھیم اور تانبے کے ذخائر

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان معدنی وسائل کی قیمت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سن 2017 میں افغان حکومت کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ ملک کی معدنی دولت کی مالیت تین ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جس میں فوسل فیول یعنی قدرتی ایندھن بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ پینٹاگون  نے افغانستان کو لیتھیم کا سعودی عرب قرار دے رکھا ہے اور پیش گوئی کی تھی کہ اس شورش زدہ ملک  میں لیتھیم کے ذخائر بولیویا کے برابر ہوسکتے ہیں۔ لیھتیم الیکٹرک کاروں، اسمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ کی بیٹریوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی مانگ میں سالانہ بیس فیصد تک اضافہ ہورہا ہے۔

افغانستان کی معدنی دولت

دوسری جانب تانبے کی مانگ میں بھی کورونا وائرس کی عالمی وبا کے نتیجے میں معاشی بحالی کے دوران سالانہ تینتالیس فیصد اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ مستقبل میں افغانستان کی معدنی دولت کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ تانبے کی کان کنی کی سرگرمیوں کو بڑھانے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

چین کی دلچسپی

طالبان کی جانب سے گزشتہ ہفتے کے دوران کابل پر قبضے کے بعد  مغربی ممالک نے ان کے ساتھ کام نہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ لیکن چین، روس اور پاکستان اس عسکریت پسند گروہ کے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے انتظار کر رہے ہیں۔

چین پہلے ہی افغانستان میں سب سے بڑا غیر ملکی سرمایہ کار ہے۔ بیجنگ حکومت کو اپنے ملک میں معدنیات کی ضرورت پورا کرنے کے لیے نئے وسائل درکار ہیں۔ اس لیے قوی امکان ہے کہ وہ افغانستان میں کان کنی کا موثر نظام تعمیر کرنے کے سلسلے میں مدد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ یورپی سکیورٹی امور کے ماہر مائیکل تانشوم کا کہنا ہے کہ چین پہلے ہی افغانستان میں ان معدنیات کی کان کنی  کے لیے بہترین پوزیشن میں ہے۔

افغانستان کے معدنی ذخائر

ایشیا میں کان کنی کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنا (ایم سی سی) کے پاس پہلے ہی افغانستان کے بنجر صوبے لوگر میں تانبے کی کان کنی کے لیے تیس سال کا ٹھیکہ موجود ہے۔ طالبان کی اعلیٰ سطحی قیادت نے حال ہی میں چینی وزیر خارجہ سے بھی ملاقات بھی کی تھی۔ طالبان کے سیاسی امور کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ، ''چین مستقبل میں افغانستان کی تعمیر نو اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔‘‘

اس کے جواب میں بیجنگ حکومت نے کہا کہ وہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کے ساتھ ''دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات‘‘ قائم کرنے کے لیے تیار ہے۔ 

تصویر: Li Ran/XinHua/dpa/picture alliance

نئی شاہراہ ریشم میں ایک اور اسٹاپ

چین کے سرکاری میڈیا میں ابھی سے ایسی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں کہ افغانستان بیجنگ حکومت کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) سے کس طرح مستفید ہو سکتا ہے۔ چین اپنے متنازع تعمیراتی منصوبے بی آر آئی کے تحت ایشیا سے یورپ تک سڑکیں، ریل، اور سمندری راستے بنانا چاہتا ہے۔ تاہم اس منصوبے میں علاقائی سلامتی سے متعلق خدشات رکاوٹیں پیدا کرسکتے ہیں۔ اس لیے بیجنگ کو کابل پر طالبان کے قبضے کے نتیجے میں دیگر وسطی ایشائی ممالک میں صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

پاکستان کا مفاد

افغان حکومت نے آج تک اپنے موجودہ کان کنی کے منصوبوں سے فائدہ حاصل نہیں کیا۔  افغانستان کا پڑوسی پاکستان  بھی افغانستان کی معدنی دولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے۔

اسلام آباد حکومت، جس نے سن 1996 میں طالبان کے افغانستان پر پہلے قبضے کی حمایت کی تھی، نے اس گروپ کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ امریکا کی جانب سے پاکستان پر طالبان کے عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے۔

تصویر: Mes Aynak Tal/AP Photo/picture alliance

پاکستان چین کی جانب سے بھاری سرمایہ کاری کا ایک بڑا فائدہ اٹھانے والا ہے۔ مائیکل تانشوم کے بقول، ''افغانستان میں پاکستان کا ایک گہرا مفاد ہے کیونکہ افغانستان سے ملنے والے معدنیات ممکنہ طور پر چینی پاکستانی تجارتی راہداری (سی پیک) کے ذریعے چین منتقل کیے جائیں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد حکومت کے لیے طالبان سے معاہدہ  کے نتیجے میں خطے میں مستحکم سکیورٹی کی فضا قائم ہو سکے گی۔

امریکا اور یورپ کیا کریں گے؟

افغانستان کے نئے طالبان رہنماؤں کو اب بھی ملک کے معدنی ذخائر نکالنے کے لیے کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر شورش زدہ ملک میں کان کنی کا ایک موثر نظام قائم کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سکیورٹی چیلنجز، کرپشن، ناقص قانونی نظام، اور بنیادی انفراسٹرکچر کی کمی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے اسے غیر ملکی امداد پر انحصار کرنا ہوگا۔

امریکا اور یورپ اب طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے مخمصے کا شکار ہیں کیونکہ اگر وہ  طالبان سے رابطے قائم کرتے ہیں تو ان پر تنقید ہوگی کہ وہ جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک عسکریت پسند گروہ سے رابطے کر رہے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو وہ چین اور طالبان کے اتحاد کو روک نہیں سکیں گے۔

ع آ / ع ح (نِک مارٹن)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں