1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: خواتین کے تفریحی پارکوں میں بھی جانے پر پابندی

10 نومبر 2022

افغانستان میں طالبان حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ اب خواتین کو تفریحی پارکوں میں بھی جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ عوامی مقامات تک رسائی کو محدود کرنے کے اعلان کے بعد خواتین کے لیے یہ نیا حکم سامنے آیا ہے۔

BG Afghanistan | Vergnügungspark
تصویر: Hector Retamal/AFP/Getty Images

افغانستان میں ''اخلاقیات سے متعلق پولیس'' نے نو نومبر بدھ کے روز حکم دیا کہ ملک کے تمام تفریحی پارکوں میں اب خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کر دی جائے۔ طالبان نے  افغان خواتین پر پہلے سے ہی بہت سی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور اس نئے حکم سے خواتین کی آزادی مزید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

طالبان کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا، یورپی یونین

گزشتہ برس اگست میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے ہی طالبان خواتین کی عوامی سرگرمیوں پر پابندیاں لگاتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے روزگار اور تعلیم جیسے ان کے بنیادی حقوق بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ 

طالبان نے خواتین کے حقوق کو شدید پامال کیا، یورپی یونین

نئے حکم کے بارے ہمیں کیا معلوم ہے؟

افغانستان کی وزارت 'امر بالمعروف و نہی عن المنکر' (ایم پی وی پی وی) کے ایک ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اب خواتین  کو تفریحی پارکوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ 

اس طرح کے دو پارک کے منتظمین نے اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر، خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ طالبان نے ان سے کہا ہے کہ وہ اپنے پارکوں میں خواتین کو داخل ہونے کی اجازت نہ دیں۔

لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ان نئی پابندیوں پر عمل کیسے کیا جائے گا کیونکہ کچھ دن پہلے ہی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے اس حوالے سے ایک نئے اصول کا اعلان کیا تھا، جس میں تفریحی پارکوں کو خواتین اور مردوں کے لیے تقسیم کرنے کی بات کہی گئی تھی۔

 اس کے مطابق پارکوں کو بعض دن مردوں کے لیے کھولنے اور بعض دن خواتین کے لیے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ تاہم اس اصول کا اطلاق کھلی جگہوں اور عوامی حماموں سمیت عام طور پر تمام عوامی پارکوں پر پہلے سے ہوتا ہے۔

افغانستان کی وزارت 'امر بالمعروف و نہی عن المنکر' (ایم پی وی پی وی) کے ایک ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اب خواتین کو تفریحی پارکوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گیتصویر: Hussein Malla/AP/picture alliance

خواتین کی آزادی پر وسیع تر قدغنوں کا حصہ

گزشتہ برس افغانستان سے نیٹو افواج کے اچانک انخلاء کے بعد طالبان کے لیے اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار ہو گئی تھی اور تبھی سے سخت گیر طالبان حکمرانوں نے لڑکیوں کو ثانوی تعلیم حاصل کرنے سے بھی محروم کر دیا۔ حالانکہ گروپ نے پہلے اس بات کے اشارے دیے تھے کہ وہ مارچ سے لڑکیوں کے تمام ہائی اسکول کھول دیں گے تاہم اب تک اس پر عمل نہیں ہوا۔

خواتین کے حقوق کے لیے کئی بار مظاہرے بھی ہوئے، تاہم طالبان حکام نے خواتین کی تعلیم، روزگار اور آزادی کے حقوق کے لیے احتجاج کرنے والے کارکنوں کو بھی کچل دیاہے۔ اطلاعات کے مطابق خواتین کے قتل میں بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ قاتلوں کو سزا بھی نہیں ملتی ہے۔

طالبان گروپ نے خواتین سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ کسی مرد رشتہ دار کے بغیر گھر سے نہ نکلیں اور اپنے چہرے کو ڈھانپ کر رکھیں۔ خواتین کو عوامی خدمات کے بھی بہت سے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے، البتہ تعلیم، صحت اور پولیس کے بعض ایسے شعبوں میں انہیں کام کرنے کی اجازت ہے، جہاں مردوں کی بھرتی نہیں کی جا سکی ہے۔

گزشتہ اگست میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ افغانستان میں، ''خواتین اور لڑکیوں میں بڑھتی ہوئی خطرناک صورتحال، ناامیدی اور بے چینی کی وجہ سے خواتین میں خود کشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، ڈی پی اے)

سابق افغان خاتون وکیل کو پاکستان میں جان کا خطرہ

02:44

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں