افغانستان قومی ایتھلیٹ فیڈریشن کی صدر چن لیے جانے کے بعد روبینہ جلالی نے کہا کہ وہ اس ادارے کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق چلانے کی کوشش کریں گی۔ جمعرات کے دن نیشنل ایتھلیٹک فیڈریشن کی الیکٹورل جنرل اسمبلی کا انعقاد کیا گیا، جس میں جلالی کو اکثریتی ووٹ سے صدر چنا گیا۔ اس سے قبل پینتس سالہ جلالی اس افغان ادارے کی ویمن نائب صدر کے عہدے پر فائز تھیں۔
روبینہ جلالی ایسی واحد افغان خاتون ایتھلیٹ ہیں، جنہوں نے اولمپک مقابلوں میں شورش زدہ ملک افغانستان کی نمائندگی کی ہے۔ انہوں نے سن دو ہزار چار اور سن دو ہزار آٹھ کے اولمپک مقابلوں میں شرکت کر کے اپنے ملک کے لیے ایک تاریخ رقم کی تھی۔
ایتھنز اور بیجنگ میں منعقدہ ان کھیلوں میں سو میٹر کی ریس میں اگرچہ وہ آخری نمبروں پر ہی رہیں تھیں لیکن ان مقابلوں میں ان کی شرکت ہی ایک اہم خبر بن گئی تھی۔ سابق ایتھلیٹ جلالی کا قومی ایتھلیٹک فیڈریشن کا صدر بننا بھی عالمی سطح پر ستائشی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔
ناقدین نے اس پیش رفت کو افغانستان میں حقوق نسواں کے لیے انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
روبینہ جلالی نہ صرف ایک کھلاڑی رہیں ہیں بلکہ وہ انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن بھی ہیں۔ اس وقت وہ افغان پارلیمان کی رکن بھی ہیں۔ انہوں نے اپنا بچپن طالبان کی حکومت میں گزارا، جہاں خواتین کو متعدد قسم کے سنگین تعصبات اور امتیازی سلوک کا سامنا تھا۔
طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں خواتین کا کھیلوں میں شرکت کرنا ناممکن سی بات تھی۔ سن دو ہزار ایک میں طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد انہوں نے باقاعدہ طور پر کھیلوں میں شرکت لینا شروع کی تھی۔
اگرچہ افغانستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں خواتین کی حالت اب بھی بہت بہتر نہیں لیکن ماضی کے مقابلے میں اس ملک میں کچھ خواتین نے اپنے ٹیلنٹ سے عالمی شہرت حاصل کی ہے۔ طالبان حکومت کے بعد خواتین نے کئی شعبوں میں اپنا نام بنایا ہے اور وہ ملکی ترقی کے لیے بدستور کوشاں ہیں۔
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpaیہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFPاس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpaستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelovاس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFPسن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFPاس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFPسن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.
تصویر: Getty Images/AFP