افغانستان کے شہر قندوز کی ایک شیعہ مسجد میں گزشتہ روز ہونے والے خودکش حملے میں درجنوں افراد ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہو گئے۔ داعش خراسان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اشتہار
افغانستان کے شمالی صوبے قندوز میں جمعہ کے روز ایک شیعہ مسجد میں دھماکے میں کم از کم پچپن افراد ہلاک ہوگئے۔ اس خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق شیعہ اقلیتی برادری سے بتایا گیا ہے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ دھماکے کی آواز جامع مسجد گذر سید آباد میں اس وقت سنی گئی جب لوگ دوپہر کی نماز کے لیے وہاں جمع ہوئے تھے۔ قندوز کے ایک استاد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ ایک خوفناک حملہ تھا۔ ان کے بقول، ''اس دھماکے میں ان کا ایک سولہ برس کی عمر کا نوجوان ہمسایہ ہلاک ہوگیا، جس کی لاش ابھی تک نہیں ملی۔‘‘
طالبان کے راج ميں زندگی: داڑھی، برقعہ اور نماز
افغانستان ميں طالبان کی حکومت کے قيام سے ايک طرف تو بين الاقوامی سطح پر سفارت کاری کا بازار گرم ہے تو دوسری جانب ملک کے اندر ايک عام آدمی کی زندگی بالکل تبديل ہو کر رہ گئی ہے۔ آج کے افغانستان ميں زندگی کی جھلکياں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
برقعہ لازم نہيں مگر لازمی
افغانستان ميں فی الحال عورتوں کے ليے برقعہ لازمی قرار نہيں ديا گيا ہے تاہم اکثريتی خواتين نے خوف اور منفی رد عمل کی وجہ برقعہ پہننا شروع کر ديا ہے۔ طالبان سخت گير اسلامی نظريات کے حامل ہيں اور ان کی حکومت ميں آزادانہ يا مغربی طرز کے لباس کا تو تصور تک نہيں۔ تصوير ميں دو خواتين اپنے بچوں کے ہمراہ ايک مارکيٹ ميں پرانے کپڑے خريد رہی ہيں۔
تصویر: Felipe Dana/AP Photo/picture alliance
داڑھی کٹوانے پر پابندی
طالبان نے حکم جاری کيا ہے کہ حجام داڑھياں نہ کاٹيں۔ يہ قانون ابھی صوبہ ہلمند ميں نافذ کر ديا گيا ہے۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ آيا اس پر ملک گير سطح پر عملدرآمد ہو گا۔ سن 1996 سے سن 2001 تک طالبان کے سابقہ دور ميں بھی مردوں کے داڑھياں ترشوانے پر پابندی عائد تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Usyan
سڑکوں اور بازاروں ميں طالبان کا راج
طالبان کی کابل اور ديگر حصوں پر چڑھائی کے فوری بعد افراتفری کا سماں تھا تاہم اب معاملات سنبھل گئے ہيں۔ بازاروں ميں گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے۔ يہ کابل شہر کا پرانا حصہ ہے، جہاں خريداروں اور دکانداروں کا رش لگا رہتا ہے۔ ليکن ساتھ ہی ہر جگہ بندوقيں لٹکائے طالبان بھی پھرتے رہتے ہيں اور اگر کچھ بھی ان کی مرضی کے تحت نہ ہو، تو وہ فوری طور پر مداخلت کرتے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
خواتين کے حقوق کی صورتحال غير واضح
بيوٹی پارلرز کے باہر لگی تصاوير ہوں يا اشتہارات، طالبان کو اس طرح خواتين کی تصاوير بالکل قبول نہيں۔ ملک بھر سے ايسی تصاوير ہٹا يا چھپا دی گئی ہيں۔ افغانستان ميں طالبان کی آمد کے بعد سے خواتين کے حقوق کی صورتحال بالخصوص غير واضح ہے۔ چند مظاہروں کے دوران خواتين پر تشدد بھی کيا گيا۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
بچياں سيکنڈری اسکولوں و يونيورسٹيوں سے غائب
افغان طالبان نے پرائمری اسکولوں ميں تو لڑکيوں کو تعليم کی اجازت دے دی ہے مگر سيکنڈری اسکولوں میں بچياں ابھی تک جانا شروع نہیں ہوئیں ہيں۔ پرائمری اسکولوں ميں بھی لڑکوں اور لڑکيوں کو عليحدہ عليحدہ پردے کے ساتھ بٹھايا جاتا ہے۔ کافی تنقيد کے بعد طالبان نے چند روز قبل بيان جاری کيا تھا کہ سيکنڈری اسکولوں اور يونيورسٹيوں ميں لڑکيوں کی واپسی کے معاملے پر جلد فيصلہ کيا جائے گا۔
تصویر: Felipe Dana/AP Photo/picture alliance
کھيل کے ميدانوں سے بھی لڑکياں غير حاضر
کرکٹ افغانستان ميں بھی مقبول ہے۔ اس تصوير ميں کابل کے چمن ہوزاری پارک ميں بچے کرکٹ کھيل رہے ہيں۔ خواتين کو کسی کھيل ميں شرکت کی اجازت نہيں۔ خواتين کھلاڑی وطن چھوڑ کر ديگر ملکوں ميں پناہ لے چکی ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
بے روزگاری عروج پر
افغانستان کو شديد اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ اس ملک کے ستر فيصد اخراجات بيرونی امداد سے پورے ہوتے تھے۔ یہ اب معطل ہو چکے ہیں۔ ايسے ميں افراط زر مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ يوميہ اجرت پر کام کرنے والے يہ مزدور بيکار بيٹھے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
نماز اور عبادت، زندگی کا اہم حصہ
جمعے کی نماز کا منظر۔ مسلمانوں کے ليے جمعہ اہم دن ہوتا ہے اور جمعے کی نماز کو بھی خصوصی اہميت حاصل ہے۔ اس تصوير ميں بچی بھی دکھائی دے رہی ہے، جو جوتے صاف کر کے روزگار کماتی ہے۔ وہ منتظر ہے کہ نمازی نماز ختم کريں اور اس سے اپنے جوتے صاف کرائيں اور وہ چار پيسے کما سکے۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
عام شہری پريشان، طالبان خوش
عام افغان شہری ايک عجيب کشمکش ميں مبتلا ہے مگر طالبان اکثر لطف اندوز ہوتے دکھائی ديتے ہيں۔ اس تصوير ميں طالبان ايک اسپيڈ بوٹ ميں سیر کر کے خوش ہو رہے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
9 تصاویر1 | 9
علاوہ ازیں امدادی تنظیم ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے مطابق اس حملے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں اور ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
شیعہ برادری داعش کے نشانے پر
افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہ داعش سے منسلک داعش خراسان (آئی ایس کے پی) نے اس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ماضی میں بھی یہ دہشت گرد تنظیم افغانستان میں شیعہ برادری پر حملے کرتی رہی ہے۔ سنی اکثریتی ملک میں شیعہ آبادی کل آبادی کا تقریباﹰ بیس فیصد بنتی ہے۔
پاکستانی شیعہ کمیونٹی کا ملک گیر احتجاج اور دھرنے
بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں منگل کو شیعہ زائرین کی ایک بسں پر حملے اور ہلاکتوں کے خلاف کوئٹہ، کراچی، لاہور اور ملک کے دیگر حصوں میں احتجاج جاری ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کراچی میں ایک شیعہ مسلمان لڑکی منگل کے روز ہونے والے واقعے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں ہونے والی اس فرقہ ورانہ کارروائی میں بڑی تعداد میں شیعہ زائرین سمیت کم از کم اٹھائیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Reuters
کراچی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ ان مظاہروں میں خواتین، مرد اور بچے بھی شامل ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ملک میں نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم عسکری تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
تصویر: Reuters
شیعہ کمیونٹی کی طرف سے لاہور میں بھی احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ شرکاء کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے، احتجاج جاری رہے گا۔
تصویر: AFP/Getty Images
کوئٹہ میں علمدار روڈ کے قریب ٹائر جلاتے ہوئے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 20 فیصد حصہ شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
تصویر: /AFP/Getty Images
ہزارہ شیعہ کیمونٹی کے سینکڑوں افراد نے مستونگ مں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ میں علمدار روڈ پر دھرنا دے رکھا ہے۔ اس احتجاج میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شریک ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو پہلے بھی متعدد مرتبہ دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اسی طرح کے احتجاج کے نتیجے میں صوبائی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
مجلس وحد ت المسلمین کے رہنما علامہ ہاشم موسوی کے بقول، ’’ہم اپنا دھرنا جاری رکھیں گے اور پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ وفاقی حکومت کا نمائندہ آئے اور اپنے ساتھ ٹارگٹڈ آپریشن پر عمل درآمد کے حوالے سے ضمانت پیش کرے، تب ہی ہم دھرنا ختم کر کے شہداء کی تدفین کریں گے۔‘‘
تصویر: G. Kakar
بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بدھ کو علمدار روڈ کا دورہ کیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ہزارہ برادری کے دھرنے میں شامل اراکین سے دھرنا ختم کرنے کو کہا تاہم مظاہرین نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیعہ کمیونٹی کے خلاف حملوں کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ کوئٹہ کی مختلف امام بارگاہوں کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
9 تصاویر1 | 9
داعش کے اس گروپ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایک خودکش حملہ آور نے 'ہجوم کے درمیان خود کو ایک دھماکہ خیز جیکٹ کے ساتھ دھماکے سے اڑا دیا۔‘ بعد ازاں ایک اور بیان میں بتایا گیا کہ خودکش حملہ آور کا تعلق ایغور مسلم اقلیتی گروپ سے تھا جسے 'طالبان نے افغانستان سے نکالنے کا کہا تھا۔‘
افغان طالبان کے لیے چیلنجز
افغانستان سے امریکی اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی افواج کے انخلا کے بعد اس حملے کو سب سے ہولناک حملہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ ملک حالیہ ہفتوں میں کئی مہلک بم دھماکوں کی زد میں رہا ہے جن میں کابل کی ایک مسجد کا حملہ بھی شامل ہے۔
طالبان کے افغانستان میں عاشورہ
03:51
جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگل من نے فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ طالبان اپنے اقتدار کو اُس وقت تک مستحکم نہیں بنا سکتے جب تک وہ افغانستان میں دہشت گردی اور معاشی بحران سے نہیں نمٹ لیتے۔ ان کے بقول، ''طالبان کو ان خدشات کو دورکرنا ہوگا - بصورت دیگر ایک نئی مسلح مزاحمت شروع ہوسکتی ہے۔‘‘
ماہ اگست میں کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے افغان طالبان اپنی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے بھی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں آج امریکی وفد اور طالبان کے اعلیٰ سطحی نمائندے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
واشنگٹن حکومت چاہتی ہے کہ طالبان افغانستان میں انسانی حقوق کی پاسداری کریں اور امدادی تنظیموں کو ملک میں کام کرنے کی رسائی دیں۔