افغانستان، مقامی جرمن عملے کا کیا بنا؟
15 اگست 2023دہشت گردی اور غربت کے خلاف لڑی گئی بیس سالہ تباہی کوئی رنگ لائے بغیر ہی ختم ہو گئی اور یوں 15 اگست دو ہزار اکیس کو غیرملکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی طالبان کابل پر قابض ہو گئے۔ انتہائی افراتفری کے عالم میں جرمنی کی 'بنڈس ویئر‘ یا مسلح افواج نے افغانستان سے جرمن اور ان کی معاونت کرنے والے افغان شہریوں کو ریسکیو کیا۔ مگر بہت سے مقامی باشندے اس دوران ریسکیو نہ کیے جا سکے۔ تب کی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ایسے افغان باشندوں کی بھرپورمدد کا وعدہکیا تھا۔ تاہم اب بھی ایسے کئی افراد ہیں جو بدستور جرمن مدد کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔
سیاسی پناہ کی درخواستوں میں اضافے پر یورپی ممالک پریشان
افغانستان کی پہلی خاتون میئر کے لیے جرمنی کا لوتھر پرائز
تب میرکل نے کہا تھا، ''ہم پوری کوشش میں ہیں کہ افغان شہری ملک سے نکل سکیں۔ خاص طور پر ایسے افغان جو جرمن مسلح افواج، پولیس اور امدادی تنظیموں کے ساتھ بطور مقامی اسٹاف کام کرتے رہے ہیں کیوں کہ ان افراد نے ایک پرامن، آزاد اور ترقی کرتے مستقبل کا خواب دیکھا تھا۔ ‘‘
مگر دو برس بعد بھی ہزاروں مقامی عملے کے افراد، ان کے اہل خانہ اور دیگر کم زور طبقے سے تعلق رکھنے والے افغان باشندے جرمنی پہنچنے کے منتظر ہیں۔ حکومتی اداروں کے علاوہ سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے والے افغان باشندے بھی خدشات اور خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔
جنوری 2022 ء سے جرمنی ایسے بیس ہزار افغان شہری اور ان کے اہل خانہ کو اپنے ہاں جگہ دے چکا ہے۔
جرمن پارلیمان کی افغانستان سے متعلق ایک انکوائری کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ جرمنی سابقہ مقامی ملازمین کی مدد کرنے میں مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ کمیٹی جرمن حکومت سے یہ بھی پوچھ چکی ہے کہ اس کے پاس طالبان کے طاقت میں آ جانے کی صورت میں مقامی ملازمین کو فوری ریسیکو کرنے کا کوئی منصوبہ کیوں موجود نہیں تھا؟
جرمنی کی وفاقی وزارت برائے اقتصادی تعاون اور ترقی کے وسطیٰ ایشیا، افغانستان اور پاکستان کے امور کے سربراہ نے اعتراف کیا تھا کہ ان کی وزارت ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اسی صورتحال میں افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان، تاجکستان اور ازبکستان پہنچنے والے افغان باشندوں کی تو مدد کی گئی تاہم افغانستان کے اندر موجود افراد کو جرمنی لانے سے متعلق کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
یہ مضمون سب سے پہلے جرمن زبان میں شائع ہوا۔
ع ت، ک م (مارسیل فؤرشٹیناؤ)