1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوج کے مبينہ جنگی جرائم بے نقاب کرنے والا صحافی تفتيش سے بری

15 اکتوبر 2020

افغانستان ميں آسٹريلوی فوجيوں کے مبينہ جنگی جرائم بے نقاب کرنے والے صحافی کے خلاف تفتيشی عمل ترک کر ديا گيا ہے۔ 'افغان فائلز‘ ميں الزام عائد کيا گيا تھا کہ آسٹريلوی فوج کے ارکان نے نہتے افراد بشمول بچوں کو قتل کيا تھا۔

Australische Soldaten in Afghanistan
تصویر: Deshakalyan ChowdhuryAFP/Getty Images

افغانستان ميں آسٹريلوی فوجی دستوں کے مبينہ جنگی جرائم کا پردہ فاش کرنے والے ايک صحافی کے خلاف جاری تفتيشی عمل ختم کر ديا گيا ہے۔ وفاقی پوليس نے کہا ہے کہ استغاثہ کو آسٹريلين براڈکاسٹنگ کارپوريشن (ABC) سے وابستہ صحافی ڈينيل اوکس کو قصور وار قرار دينے کے ليے کافی شواہد ملے ليکن ان کے خلاف ايکشن لينا شايد عوامی مفاد ميں نا ہوتا۔ اسی ليے کافی طريل عرصے سے جاری تفتيشی عمل ترک کر ديا گيا ہے۔

افغانستان ميں آسٹريلوی فوجی دستوں کے مبنيہ جنگی جرائم

ڈينيل اوکس کے خلاف تفتيش ختم کرنے کا فيصلہ اے بی سی کی جانب سے 'افغان فائلز‘ کی اشاعت کے لگ بھگ تين برس بعد سامنے آيا ہے۔ ان دستاويزات کے ذريعے يہ الزام عائد کيا گيا تھا کہ افغانستان ميں آسٹريلوی فوج کے چند ارکان نے نہتے افراد بشمول بچوں کو قتل کيا۔ پوليس، ڈينيل اوکس اور ان کے پروڈيوسر سيم کلارک کے خلاف تفتيش کر رہی تھی کہ انہوں نے حکومت کی انتہائی خفيہ دستاويزات کيسے حاصل کيں۔ اسی سلسلے ميں گزشتہ برس پوليس نے اے بی سی کے دفتر پر چھاپہ بھی مارا تھا۔

ڈينيل اوکس کے خلاف تفتيشی عمل ختم کرنے کے فيصلے پر اے بی سی کے مينيجنگ ڈائريکٹر ڈيوڈ اينڈرسن نے اطمينان کا اظہار کيا ہے مگر ساتھ ہی ان کا يہ بھی کہنا تھا کہ حکام کو يہ فرد جرم عائد ہی نہيں کرنا چاہيے تھی۔ ان کے بقول صحافت کے ليے يہ ايک پريشان کن اور مايوس کن تجربہ رہا۔ دوسری جانب پوليس نے بتايا کہ عوامی مفاد اور صحافت کی عوام ميں اہميت جيسے بہت سے عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ملکی جمہوری اقتدار کا خيال رکھتے ہوئے مذکورہ صحافی کے خلاف تفتيش ترک کرنے کا فيصلہ ليا گيا۔

آسٹريليا ميں گزشتہ برس جب اے بی سی کے دفتر پر چھاپہ مارا گيا تھا، تو اس سے ايک روز قبل ہی روپرٹ مرڈوخ نيوز کارپوريشن کے ايک رپورٹر کے گھر کی بھی تلاشی لی گئی تھی، جس کی وجہ دو سال قبل چھپنے والا ايک آرٹيکل تھا، جس ميں يہ دعویٰ کيا گيا تھا کہ حکومت اپنے اختيارات ميں اضافہ کرتے ہوئے آسٹريلوی شہريوں کی جاسوسی کرنا چاہتی ہے۔ البتہ يہ کيس بھی اسی سال ختم کر ديا گيا تھا۔ گو کہ اب يہ دونوں کيس اور ان کے سلسلے ميں تفتيشی عمل ختم کيا جا چکا ہے مگر ان کيسز کی وجہ سے آسٹريليا ميں آزادی صحافت کے معيار پر ايک بحث چھڑ گئی تھی۔

اگرچہ آسٹريليا ميں آزادی صحافت پر کوئی خاص قدغنيں نہيں تاہم سلامتی سے متعلق قوانين، عدالتی احکامات اور بدنامی سے بچنے کے ليے سخت قوانين اکثر صحافت پر اثر انداز ہوتے ہيں۔ ان واقعات کے بعد تمام آسٹريلوی نشرياتی ادارے اپنے اختلافات دور کرتے ہوئے صحافت کے تحفظ کے ليے متحد ہو گئے تھے۔

افغانستان میں طالبان کی قیادت میں زندگی کیسی ؟

03:50

This browser does not support the video element.

ع س / ا ب ا (اے ايف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں