افغانستان ميں قيام امن کے ليے پاکستان کا مثبت کردار
16 دسمبر 2020
افغانستان ميں تشدد ميں اضافے کے تناظر ميں پاکستانی حکومت نے طالبان کے ايک وفد کو اسلام آباد دعوت دی ہے۔ اس دورے پر حکام طالبان کی قيادت پر تشدد ميں کمی اور امن عمل کو آگے بڑھانے کے ليے زور ڈاليں گے۔
اشتہار
افغان طالبان کا ايک وفد پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ليے بدھ سولہ دسمبر کو دارالحکومت اسلام آباد پہنچا۔ اس وفد کی قيادت طالبان کے شريک بانی ملا عبدالغی برادر کر رہے ہيں۔ طالبان کے ترجمان محمد نعيم نے منگل کی شب ايک ٹوئيٹ ميں تصديق کی کہ پاکستانی حکومت کی دعوت پر ملا برادر کی قيادت ميں ايک وفد اسلام آباد روانہ ہو گيا ہے، جس کے ارکان وزير اعظم عمران خان اور وزير خارجہ شاہ محمود قريشی سميت ملکی عسکری قيادت سے ملاقاتيں کريں گے۔ يہ امر اہم ہے کہ افغانستان کے ليے خصوصی امريکی مندوب زلمے خليل زاد نے بھی ايک دن قبل پاکستان کا دورہ کيا تھا، جس ميں انہوں نے راولپنڈی ميں عسکری قيادت سے ملاقاتيں کی تھیں۔
افغان امن عمل اور پاکستان کا کردار
سن 1980 کی دہائی ميں سابقہ سوويت يونين کے خلاف جنگ کے دوران امريکی حمايت يافتہ مجاہدين کے ساتھ تعاون کے وقتوں سے پاکستان کا طالبان پر اثر و رسوخ ہے۔ اس وقت طالبان مجاہدين تحريک کا حصہ تھے۔ پھر سن 1994 ميں طالبان نے اپنا عليحدہ راستہ اختيار کر ليا۔
سن 2018 ميں جب طالبان اور امريکا کے مابين امن عمل شروع ہوا، اس وقت طالبان کو مذاکرات کی ميز پر لانے ميں پاکستان کا کليدی کردار تھا۔ بالآخر رواں سال فروری ميں دوحہ ميں طالبان اور امريکا کے مابين امن ڈيل کو حتمی شکل دی گئی اور اس پورے مرحلے ميں اسلام آباد حکومت کا کردار نماياں رہا۔ اب ستمبر سے کابل حکومت اور طالبان کے درميان براہ راست مذاکرات جاری ہيں، جن ميں بھی پاکستانی سويلين اور ملٹری قيادت طالبان پر اپنے اثر و رسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے امن عمل کو آگے بڑھا رہی ہے۔
اشتہار
افغانستان ميں تشدد ميں پھر اضافہ
امن ڈيل اور مذاکراتی عمل ميں پيش رفت کے باوجود افغانستان ميں حاليہ دنوں ميں تشدد ميں بتدريج اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔ امريکا اس پر نالاں ہے، اس ليے بھی کيونکہ دوحہ ڈيل کی شرائط ميں امريکی دستوں کے افغانستان سے مکمل انخلاء کو تشدد کے مکمل خاتمے سے جوڑا گيا تھا۔
افغان صدر اشرف غنی نے پير کو اعلان کيا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا اگلا دور پانچ جنوری سے شروع ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ صدر غنی يہ بھی چاہتے ہيں کہ مذاکرات کابل ميں ہوں نہ کہ دوحہ ميں۔
افغانستان میں طالبان کی قیادت میں زندگی کیسی ؟
03:50
تازہ پرتشدد واقعات
دريں اثناء طالبان کے ايک حملے ميں کم از کم تيرہ افغان پوليس اہلکار مارے گئے۔ يہ حملہ شمالی صوبہ بلغان کے علاقے وزير آباد ميں ايک چيک پوائنٹ پر منگل اور بدھ کی درميانی شب ہوا۔ تين پوليس اہلکار اس حملے ميں زخمی بھی ہوئے۔ اس دوران حملہ آوروں نے متعدد گاڑيوں کو نذر آتش بھی کيا۔ علاوہ ازيں طالبان نے جنوبی صوبہ اروزگاں ميں بھی سرکاری دستوں کو نشانہ بنايا۔ يہ حملے دھيراود ضلعے ميں کيے گئے اور ان ميں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد فی الحال واضح نہيں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ آئندہ برس پانچ ملين مزيد افغان شہريوں کو مدد درکار ہو گی۔ اس ادارے کے ايک سينیئر رکن نے منگل کو بتايا کہ جنگ و جدل، پر تشدد حملوں ميں اضافے کے ساتھ کورونا کی وبا کے تناظر ميں ايسے افراد کی تعداد ميں بھی اضافہ ہوا ہے، جن کا گزارا مدد پر ہو رہا ہے۔ اس سال ايسے افراد کی تعداد گيارہ ملين تھی اور اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق آئندہ برس يہ تعداد سولہ ملين ہو گی۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔