افغانستان ميں ملا فضل اللہ کی پناہ گاہ پر امريکی حملہ
15 جون 2018
افغانستان ميں امريکا کے ايک حاليہ فضائی حملے ميں امکاناً تحريک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کو نشانہ بنايا گيا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ پر يہ خبريں گردش کر رہی ہيں کہ حملے ميں ملا فضل اللہ مارا گيا۔
تصویر: A. Majeed/AFP/Getty Images
اشتہار
امريکی فوج کی جانب سے افغانستان کے مشرقی صوبے کنڑ ميں طالبان کے ايک سينئر رہنما کی پناہ گاہ پر حملے کے بارے ميں مطلع کيا گيا ہے۔ جمعرات چودہ جون کی شب واشنگٹن سے جاری کردہ ايک بيان ميں کہا گيا کہ انسداد دہشت گردی کے ليے برسرپيکار امريکی افواج نے يہ حملہ تيرہ جون کو کنڑ ميں ايک مقام پر کيا، جو پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرحد کے قريب ہے۔ ليفٹيننٹ جنرل مارٹن اوڈونل کے بقول اس حملے ميں ايک کالعدم تنظيم کے ايک سينئر کمانڈر کو ہدف بنايا گيا تھا۔ بيان ميں يہ بھی کيا گيا ہے کہ کابل حکومت کی جانب سے اعلان کردہ عارضی جنگ بندی کا احترم جاری ہے۔
دريں اثناء امريکی ذرائع ابلاغ پر نشر کردہ رپورٹوں کے مطابق اس حملے کا ہدف پاکستان تحريک طالبان کے قائد مولانا فضل اللہ تھے۔ فرانسيسی خبر رساں ادارے اے ايف پی نے واشنگٹن سے موصولہ اپنی رپورٹوں ميں يہ واضح نہيں کيا ہے کہ اس خبر کا ذريعہ کيا ہے تاہم پاکستانی ميڈيا ميں اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ايک امريکی جنرل کے ذرائع سے بتايا گيا ہے کہ اس نے امريکی ادارے ’وائس آف امريکا‘ کو ديے اپنے انٹرويو ميں يہ دعوی کيا، جس کی فی الحال ديگر ذرائع سے تصديق نہيں ہو پائی ہے۔
امريکی محکمہ خارجہ نے اسی سال مارچ ميں اعلان کيا تھا کہ ملا فضل اللہ کو پکڑوانے ميں مدد کرنے پر پانچ ملين ڈالر کا انعام ديا جائے گا۔ ملا فضل اللہ پاکستان ميں دہشت گردانہ کارروائيوں اور امريکی شہر نيو يارک کے ٹائمر اسکوائر پر سن 2010 ميں ايک کار بم حملے کی کوشش کے سلسلے ميں مطلوب ہيں۔ فضل اللہ تحريک طالبان پاکستان کے سربراہ ہيں اور القاعدہ کے ساتھ قريبی روابط کے حامل ہيں۔
يہ امر اہم ہے کہ پاکستان کے شہر پشاور ميں دسمبر سن 2014 ميں ايک اسکول پر حملے اور اس کے نتيجے ميں ڈيڑھ سو افراد بشمول بچوں کی ہلاکت کا ذمہ دار بھی تحريک طالبان پاکستان کو ہی قرار ديا جاتا ہے۔ ٹی ٹی پی ہی لڑکيوں کی تعليم کے ليے آواز اٹھانے والی ملالہ يوسفزئی پر حملے ميں ملوث تھی۔
پاکستانی حکام کے مطابق فضل اللہ نے افغانستان کے کنڑ صوبے ميں پناہ لے رکھی تھی۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2017 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کےشکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست ہے۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے قریب تین ہزار واقعات پیش آئے جن میں قریب 10 ہزار افراد ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا جہاں قریب ساڑھے تیرہ سو دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انسان ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد، اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم رہی۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.44 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 9.00 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 466 دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سن 2014 میں ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2016 میں دہشت گردی کے 366 واقعات رونما ہوئے جن میں اکیس سو انسان ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.6 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 736 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے نو سو افراد ہلاک اور سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان، داعش کی خراسان شاخ اور لشکر جھنگوی نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی جس کی ایک اہم وجہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب نامی فوجی آپریشن بنا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 366 واقعات میں قریب ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔
تصویر: Reuters/F. Salman
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ ساتویں نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ الشباب کے شدت پسندوں نے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.6 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت بھی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جہاں دہشت گردی کے نو سو سے زائد واقعات میں 340 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن 2015 کے مقابلے میں اٹھارہ فیصد زیادہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2016ء میں لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں میں پانچ بھارتی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
ترکی
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ترکی پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ترکی میں 364 دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد افراد ہلاک اور قریب تئیس سو زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے۔ لیبیا میں بھی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں لیبیا کا اسکور 7.2 رہا۔