افغانستان ميں شدت پسندوں کی پناہ گاہيں، مسئلہ پاکستان کے ليے
26 جولائی 2020
اقوام متحدہ کی ايک تازہ رپورٹ ميں انکشاف کيا گيا ہے کہ کالعدم شدت پسند تنظيم تحريک طالبان پاکستان کے ہزاروں جنگجو افغانستان ميں پناہ ليے ہوئے ہيں۔ يہ رپورٹ سفارتی سطح پر پاکستان کے ليے ايک مثبت پيش رفت ہے۔
اشتہار
افغانستان ميں چھ سے ساڑھے چھ ہزار کے درميان پاکستان مخالف شدت پسند پناہ ليے ہوئے ہيں۔ يہ انکشاف اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ايک تازہ رپورٹ ميں کيا گيا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان شدت پسندوں کی اکثريت کا تعلق کالعدم تنظيم 'تحريک طالبان پاکستان‘ (TTP) سے ہے۔ رپورٹ ميں يہ بھی کہا گيا ہے کہ اس تنظيم کے افغانستان ميں 'اسلامک اسٹيٹ‘ یا داعش کی مقامی شاخ کے ساتھ بھی روابط ہيں اور يہ پاکستان ميں سويلين اور عسکری اہداف پر حملوں ميں ملوث رہی ہے۔ فوری طور پر کابل حکومت کا اس رپورٹ پر کوئی رد عمل سامنے نہيں آيا۔
يہ رپورٹ اقوام متحدہ کی اس ٹيم نے تيار کی ہے، جو عالمی ادارے کی طرف سے نافذ کردہ پابنديوں پر عمل درآمد کی نگرانی کرتی ہے اور دنيا بھر ميں سرگرم دہشت گرد گروہوں کی نقل و حرکت کا بھی ريکارڈ رکھتی ہے۔ يہ رپورٹ اقوام متحدہ کی جانب سے اسی ہفتے جاری کی گئی۔ رپورٹ ميں بتايا گيا ہے کہ 'آئی ايس ان خراسان‘ کہلانے والی داعش کی مقامی شاخ سے وابستہ شدت پسندوں کو نہ صرف افغان سکيورٹی دستے بلکہ وہاں تعينات امريکی اور نيٹو دستے اور کبھی کبھار طالبان بھی نشانہ بناتے آئے ہيں۔
افغانستان ميں 'اسلامک اسٹيٹ‘ کتنی مضبوط ہے؟
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ ميں بتايا گيا ہے کہ افغانستان ميں سرگرم داعش کے ارکان کی تعداد تقريباً بائيس سو ہے۔ گو کہ اس تنظيم کی مقامی قيادت کو نشانہ بنايا جاتا رہا ہے مگر خيال کيا جاتا ہے کہ شامی شہری ابو سعد محمد الخراسانی اس کا سربراہ ہے۔ رپورٹ ميں مزيد بتايا گيا ہے کہ مانيٹرنگ ٹيم کو خفيہ اطلاع ملی کہ مشرق وسطیٰ سے 'اسلامک اسٹيٹ‘ کے دو سينئر کمانڈر ابو قطيبہ اور ابو حجر العراقی حال ہی ميں افغانستان پہنچے تھے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کيا ہے کہ 'اسلامک اسٹيٹ‘ افغانستان کے تمام حصوں ميں دہشت گردانہ حملے کرنے کی صلاحيت رکھتی ہے۔ يہ تنبيہ بھی کی گئی ہے کہ تنظيم کے ارکان افغان طالبان کے ان اراکين کی حمايت حاصل کرنے کی کوششوں ميں ہيں، جو حاليہ امريکا طالبان امن ڈيل کے خلاف ہيں۔
يہ امر اہم ہے کہ کئی سالوں سے جاری مذاکراتی عمل کے بعد رواں سال فروری ميں دوحہ ميں امريکا اور طالبان نے ايک امن ڈيل کو حتمی شکل دی تھی۔ اس ڈيل کے تحت طالبان کے پانچ ہزار قيدیوں کو رہا کيا جانا ہے، جن ميں سے کابل حکومت چار ہزار کو رہا کر چکی ہے۔ افغان طالبان بھی اپنے زیر حراست سات سو سرکاری اہلکار رہا کر چکے ہیں۔
افغانستان کے ليے خصوصی امريکی مندوب زلمے خليل زاد پچیس جولائی ہفتے کے دن پانچ ملکوں کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ ان کے اس دورے کا مقصد کابل حکومت اور طالبان عسکریت پسندوں کے مابين مذاکرات کو عملی شکل دینے کی کوشش کرنا ہے۔ امريکی محکمہ خارجہ نے ہفتے کے روز بتايا کہ خليل زاد اس دورے کے دوران متعدد ممالک کا سفر کریں گے۔ امن مذاکرات میں سہولت کاری کے ليے وہ اوسلو، اسلام آباد، دوحہ، کابل اور صوفيہ جائیں گے۔ افغانستان ميں خليل زاد قيديوں کے تبادلے کے معاملے کو آگے بڑھانے پر زور ديں گے، جو امن مذاکرات کی ابتدا کی راہ ميں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ يہ تمام تر سفارتی کوششيں افغانستان ميں ديرپا قيام امن کے ليے کی جا رہی ہيں۔
2019 میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2019 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 81 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: Reuters/E. Su
1۔ افغانستان
دنیا بھر میں دہشت گردی سے متاثر ممالک میں افغانستان اس برس سر فہرست رہا۔ سن 2018 کے دوران افغانستان میں 1443 دہشت گردانہ واقعات ہوئے جن میں 7379 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ ہزار افراد زخمی ہوئے۔ 83 فیصد ہلاکتیں طالبان کے کیے گئے حملوں کے سبب ہوئیں۔ طالبان نے پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا۔ داعش خراسان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.60 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
2۔ عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست رہنے کے بعد دوسرے نمبر پر آیا۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2018ء کے دوران عراق میں دہشت گردی کے 1131 واقعات پیش آئے جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 57 فیصد کم ہیں۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں ہلاکتوں میں 75 فیصد کمی دیکھی گئی۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور 9.24 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
3۔ نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 8.59 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 562 دہشت گردانہ حملوں میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 772 زخمی ہوئے۔ سن 2001 سے اب تک نائجیریا میں 22 ہزار سے زائد افراد دہشت گردی کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Stringer
4۔ شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش، حیات تحریر الشام اور کردستان ورکرز پارٹی کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2018 کے دوران دہشت گردی کے 131 واقعات رونما ہوئے جن میں 662 انسان ہلاک جب کہ سات سو سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.0 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
5۔ پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 366 دہشت گردانہ واقعات میں 537 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ گزشتہ برس دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں داعش خراسان اور تحریک طالبان پاکستان نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 81 فیصد کم رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
6۔ صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ چھٹے نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ صومالیہ میں دہشت گردی کے 286 واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں 646 افراد ہلاک ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.8 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
7۔ بھارت
اس برس کے عالمی انڈیکس میں بھارت آٹھویں سے ساتویں نمبر پر آ گیا۔ بھارت میں دہشت گردی کے قریب ساڑھے سات سو واقعات میں 350 افراد ہلاک جب کہ 540 زخمی ہوئے۔ بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2018ء کے دوران کشمیر میں 321 دہشت گردانہ حملوں میں 123 افراد ہلاک ہوئے۔ کشمیر میں دہشت گردانہ حملے حزب المجاہدین، جیش محمد اور لشکر طیبہ نے کیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
8۔ یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 227 واقعات میں 301 افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی شاخ AQAP کے دہشت گرد ملوث تھے۔ تاہم سن 2015 کے مقابلے میں یمن میں دہشت گردی باعث ہلاکتوں کی تعداد 81 فیصد کم رہی۔
تصویر: Reuters/F. Salman
9۔ فلپائن
فلپائن نویں نمبر پر رہا جہاں سن 2018 کے دوران دہشت گردی کے 424 واقعات پیش آئے جن میں قریب تین سو شہری مارے گئے۔ سن 2001 سے اب تک فلپائن میں تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ رواں برس جی ٹی آئی انڈیکس میں فلپائن کا اسکور 7.14 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Favila
10۔ جمہوریہ کانگو
تازہ انڈیکس میں دسویں نمبر پر جمہوریہ کانگو رہا جہاں الائیڈ ڈیموکریٹک فورسز اور دیگر گروہوں کے دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ ان گروہوں کے حملوں میں زیادہ تر عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔
تصویر: DW/J. Kanyunyu
10 تصاویر1 | 10
افغانستان ميں شدت پسنوں کی پناہ گاہيں، پاکستان کے ليے بڑا مسئلہ
تحريک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور لشکر اسلام جيسی کالعدم تنظيموں سے وابستہ شدت پسندوں کی افغانستان ميں موجودگی پاکستان کے ليے ايک بڑا مسئلہ ہے۔ ساتھ ہی مقامی عليحدگی پسند گروہ بلوچستان لبريشن آرمی بھی سرگرم ہے، جو جنوبی صوبہ سندھ اور بلوچستان ميں متحرک ہے اور انہی صوبوں ميں حملے بھی کرتی آئی ہے۔ ان تمام تنظيموں کے حملوں ميں نہ صرف پاکستانی فوجی اہلکاروں بلکہ شہريوں کی ايک بڑی تعداد بھی ہلاک ہو چکی ہے۔
ٹی ٹی پی سن 2014 ميں پاکستانی تاريخ کے بد ترين سانحے ميں بھی ملوث تھی، جب اس تنظيم سے وابستہ شدت پسندوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دھاوا بولتے ہوئے ايک سو چاليس افراد کو ہلاک کر ديا تھا۔ ان ميں اکثريت کم عمر طالب علموں کی تھی۔
طالبان اور امریکا کی ڈیل سب کی کامیابی ہے، شاہ محمود قریشی