1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں امریکی مداخلت ، پندرہ سال گزر گئے

7 اکتوبر 2016

ستمبر2001ء کے دہشت گردی کے تقریباً ایک ماہ بعد واشنگٹن نے دہشت گردی کے خلاف اپنی عسکری مہم کا آغاز کرتے ہوئے افغانستان پر حملہ کر دیا تھا۔ آج پندرہ برس بعد بھی ہر سال ہزاروں افغان شہری پرتشدد واقعات کی نذر ہو رہے ہیں۔

Afghanistan Kämpfe gegen Taliban in Kundus
تصویر: Reuters/N. Wakif

امریکا نے سات اکتوبر2001ء کو دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے خاتمے کے لیے افغانستان میں مداخلت کی تھی۔ ویتنام کے بعد یہ امریکی تاریخ کی سب سے طویل ترین جنگ ثابت ہو رہی ہے اور سب سے مہنگی بھی۔ اب تک اس جنگ پر ایک سو ارب ڈالر سے زائد خرچ ہو چکے ہیں۔ تمام تر عسکری حربے اور تعمیر و ترقی کے منصوبوں کے بعد آج بھی یہ ملک غیر محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔

حال میں شدت پسندوں کی جانب سے شہری علاقوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جس کی تازہ مثال گزشتہ ہفتے قندوز پر طالبان کی جانب سے کی جانے والی چڑھائی تھی۔ اس پر امریکی عسکری ماہرین نے افغانستان کی صورتحال کو تعطّل کا شکار اور بے نتیجہ قرار دیا۔ طالبان کے خوف نے امریکی صدر باراک اوباما کو افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کے عمل کو سست کرنے پر مجبور کر دیا۔ اب 2017ء میں ساڑھے آٹھ ہزار کے لگ بھگ امریکی فوجی افغانستان میں تعینات رہیں گے جبکہ منصوبے کے تحت صرف ساڑھے پانچ ہزار کو یہاں پر موجود رہنا تھا۔

 ان پندرہ برسوں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کا صحیح اندازہ لگانا تو مشکل ہے تاہم اقوام متحدہ کے ایک امدادی مشن کے مطابق تیئس ہزار سے زائد عام شہری ہلاک ہوئے۔ گزشتہ برس ہونے والے دھماکوں میں گیارہ ہزار سے زائد لوگ ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔ 2014ء کے اختتام تک غیر ملکی افواج کے ساڑھے تین ہزار اہلکار لقمہ اجل بنے جبکہ 33 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ ان میں سے سب سے بڑی تعداد امریکیوں کی تھی۔ 2015ء میں صرف افغان دستوں کے پانچ ہزار اہلکار ہلاک ہوئے، جن میں 37 سو پولیس فورس کا حصہ تھے۔

ان برسوں کے دوران صرف امریکا نے جنگ سے تباہ حال اس ملک کی تعمیر و ترقی پر 110 ارب ڈالر خرچ کیے تاہم اس کا نتیجہ بہت حد تک محدود رہا۔ یہ رقم اس بجٹ سے کہیں زیادہ ہے، جو امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے بعد تباہ حال یورپ کی تعمیر نو پر خرچ کی تھی۔ یورپی مبصرین کے مطابق افغانستان پر خرچ کی جانے والی رقم کا تقریباً 80 فیصد عسکری معاہدوں، مشاورت اور بحالی کے کاموں کی صورت میں امریکیوں کی ہی جیب میں واپس گیا۔ جبکہ ایک بڑا حصہ افغان حکام کی بدعنوانی کی نذر ہو گیا۔ افغانستان دنیا کا تیسرا بدعنوان ترین ملک ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں