افغانستان میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی روپوشی پر مجبور
28 ستمبر 2021
افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد صرف خواتین اور آزاد خیال لوگ ہی پریشان نہیں بلکہ ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے ارکان بھی اپنی جان بچاتے پھر رہے ہیں۔ یہ کمیونٹی آج بھی طالبان کے سابقہ دور سے خوف زدہ ہے۔
اشتہار
مروا اور اس کا دوست دونوں ہم جنس پرست ہیں۔ اگست میں کابل پر طالبان کی چڑھائی کے موقع پر ان دونوں نے اچانک شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ نہ ہی باقاعدہ تقریب منعقد ہوئی اور نہ ہی رشتہ دار اور دوست احباب ان کی اس خوشی میں شریک ہو سکے۔ چوبیس سالہ مروا نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''مجھے خوف تھا کہ طالبان آ کر ہمیں مار ڈالیں گے۔‘‘
افغانستان میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی آج بھی طالبان کے سابقہ دور سے خوف زدہ ہے۔ سن 1996 سے لے کر سن 2001 تک طالبان کی حکومت تھی۔ اس دور میں ہم جنس پرستوں کو سنگسار کر دیا جاتا تھا۔ سنگسار یا رَجم ایک سزا ہے، جس میں مجرم کو کمر یا سینے تک زمین میں دبا دیا جاتا ہے اور پھر اسے پتھر مارے جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ مر جائے۔
ابھی تک طالبان نے ہم جنس پرستوں کے حوالے سے اپنی پالیسی واضح نہیں کی ہے تاہم سابق سینئر جج گل رحیم نے ایک جرمن نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ ہم جنس پرستوں کے لیے سزائے موت بحال کیے جانے کا امکان ہے۔ طالبان یہ واضح کر چکے ہیں کہ ان کے دور میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے گا۔
ایسے ممالک جہاں ہم جنس پسند شادی کر سکتے ہیں
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں ہم جنس پسند قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اب تک کن ممالک میں ہم جنس پسندوں کی شادیوں کو ریاستی تحفظ فراہم کیا جا چکا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Yeh
ہالینڈ، سن دو ہزار ایک
ہالینڈ دنیا کا پہلا ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت دی گئی۔ ڈچ پارلیمان نے اس تناظر میں سن دو ہزار میں ایک قانون کی منظوری دی تھی۔ یکم اپریل سن دو ہزار ایک کو دنیا میں پہلی مرتبہ دو مردوں کے مابین شادی کی قانونی تقریب منعقد ہوئی۔ یہ شادی تھی اس وقت ایمسٹرڈیم کے میئر جاب کوہن کی۔ اب ہالینڈ میں ہم جنس جوڑے بچوں کو بھی گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANP/M. Antonisse
بیلجیم، سن دو ہزار تین
ہالینڈ کا ہمسایہ ملک بیلجیم دنیا کا دوسرا ملک تھا، جہاں پارلیمان نے ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی اجازت دی گئی۔ سن دو ہزار تین میں ملکی پارلیمان نے قانون منظور کیا کہ خواتین یا مرد اگر آپس میں شادی کرتے ہیں تو انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے، جو شادی شدہ جوڑوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس قانون کے منظور ہونے کے تین برس بعد ہم جنس جوڑوں کو بچے گود لینے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/J. Warnand
ارجنٹائن، سن دو ہزار دس
ارجنٹائن لاطینی امریکا کا پہلا جبکہ عالمی سطح پر دسواں ملک تھا، جہاں ہم جنسوں کے مابین شادی کو ریاستی تحفظ فراہم کیا گیا۔ جولائی سن دو ہزار دس میں ملکی سینیٹ میں یہ قانون 33 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوا جبکہ 27 ووٹ اس کے خلاف دیے گئے۔ اسی برس پرتگال اور آئس لینڈ نے بھی ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی بنانے کے حوالے سے قوانین منظور کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/L. La Valle
ڈنمارک، سن دو ہزار بارہ
ڈنمارک کی پارلیمان نے جون سن دو ہزار بارہ میں بڑی اکثریت کے ساتھ ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی۔ اسکینڈے نیویا کا یہ چھوٹا سا ملک سن 1989 میں اس وقت خبروں کی زینت بنا تھا، جب وہاں ہم جنس جوڑوں کو سول پارٹنرشپ کے حقوق دیے گئے تھے۔ ڈنمارک میں سن دو ہزار نو سے ہم جنس پسندوں کو اجازت ہے کہ وہ بچے گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/CITYPRESS 24/H. Lundquist
نیوزی لینڈ، سن دو ہزار تیرہ
نیوزی لینڈ میں ہم جنس پسند مردوں اور خواتین کو شادی کی اجازت سن دو ہزار تیرہ میں ملی۔ یہ ایشیا پیسفک کا پہلا جبکہ دنیا کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کو شادی کی اجازت دی گئی۔ نیوزی لینڈ میں انیس اگست کو ہم جنس پسند خواتین لینلی بنڈال اور ایلی وانیک کی شادی ہوئی۔ فرانس نے بھی سن دو ہزار تیرہ میں ہم جنس پسندوں کو شادی کی قانونی اجازت دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Air New Zealand
آئر لینڈ، سن دو ہزار پندرہ
آئرلینڈ ایسا پہلا ملک ہے، جہاں ایک ریفرنڈم کے ذریعے ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت کا قانون منظور ہوا۔ اس ریفرنڈم میں دو تہائی سے زائد اکثریت نے ہم جنسوں کے مابین شادی کی حمایت کی تو تب ہزاروں افراد نے دارالحکومت ڈبلن کی سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Crawley
امریکا، سن دو ہزار پندرہ
امریکا میں چھبیس جون سن دو ہزار پندرہ کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا کہ ملکی آئین ہم جنسوں کی مابین شادیوں کی قانونی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اسی فیصلے کی بدولت امریکا بھر میں ہم جنس جوڑوں کے مابین شادی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس سے قبل بارہ برس تک امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس پسند افراد کے مابین شادی کو غیر آئینی قرار دیے رکھا تھا۔
جرمنی یورپ کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی گئی۔ تیس جون کو بنڈس ٹاگ میں 226 کے مقابلے میں یہ قانون 393 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ اگرچہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس قانون کے خلاف ووٹ دیا تاہم انہوں نے اس کے منظور کیے جانے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/O. Messinger
آسٹریلیا، سن دو ہزار سترہ۔ اٹھارہ
آسٹریلوی میں ایک پوسٹل سروے کرایا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اس ملک کی اکثریت ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی حمایت کرتی ہے تو ملکی پارلیمان نے دسمبر 2017 میں اس سلسلے میں ایک قانون منظور کر لیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Hamilton
تائیوان، سن دو ہزار انیس
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک ہے، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ سترہ مئی سن دو ہزار سترہ کو ملکی پارلیمان نے اس حوالے سے ایک تاریخی مسودہ قانون منظور کیا۔ اس قانون کی منظوری پر صدر نے کہا کہ ’حقیقی برابری کی طرف یہ ایک بڑا قدم ہے‘۔
تصویر: dapd
10 تصاویر1 | 10
انہی حالات کی وجہ سے افغانستان میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے ارکان روپوش ہو گئے ہیں اور انہوں نے سوشل میڈیا سے اپنی سابقہ طرز زندگی کے تمام شواہد مٹا دیے ہیں۔ حال ہی میں ایک ہم جنس پرست لڑکے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ہرات کے رہائشی ایک لڑکے نے بتایا، ''جب طالبان آئے تو ہمیں اپنے گھروں میں نظر بند ہونا پڑ گیا۔ دو تین ہفتے تو بالکل باہر نہیں نکلے۔‘‘
افغانستان ایک قدامت پسند معاشرے کا حامل ملک ہے مگر حالیہ برسوں میں وہاں ہم جنس پرستوں کے حوالے سے عدم برداشت میں کمی نوٹ کی جا رہی ہے۔ اکبری معروف افغان ایل جی بی ٹی کارکن ہیں، جو چند سال قبل ترکی منتقل ہو گئے تھے۔ ان کے بقول آہستہ آہستہ لوگ ہم جنس پرستوں کو تسلیم کرنے لگے تھے۔ لیکن جیسے جیسے طالبان شہروں پر قابض ہوتے گئے، افغانستان میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے ارکان پاکستان اور ایران فرار ہوتے گئے۔