افغانستان میں بدلتے رویے، بچیوں کی تعلیم پر سجھوتہ نہیں
31 اکتوبر 2021
مینا احمد سیمنٹ کی مکسچر سے اپنے تباہ شدہ گھر کی دیواریں تعمیر کر رہی ہے۔ افغان گاؤں سالار کی یہ خاتون اس جنگ زدہ ملک میں امن کی خواہاں ہے۔
اشتہار
مینا احمد کا گھر بھی لڑائی میں متاثر ہوا تھا۔ وہ ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتی ہے اور اسی لگن میں اپنے گھر کی تعمیر نو میں مصروف ہے۔ اب طالبان کی عمل داری کے بعد امن کی وجہ سے وہ کچھ مطمئن بھی ہوئی ہے۔
جب طالبان نے افغانستان کا انتظام سنبھالا تھا تو وہ فکر مند ہو گئی تھی تاہم پینتالیس سالہ مینا کو تو امن چاہیے، وہ جیسے بھی آئے۔ وہ دو دہائیوں سے جاری شورش کی وجہ سے مایوس ہو گئی تھی لیکن اب اس کا کہنا ہے کہ اسے ایک نئی امید نے سرشار کر دیا ہے۔
میناوکا معلوم ہے کہ طالبان کے افغانستان میں خواتین کا معاشرتی کردار محدود ہو جائے گا تاہم اس کا کہنا ہے کہ امن ہو تو وہ ان پابندیوں کے ساتھ بھی بہترین زندگی گزار سکتی ہے۔
ایک بات پر مینا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتی اور وہ ہے بچیوں کی تعلیم۔ اس کی تین بیٹیاں ہیں۔ ان کی عمریں تیرہ، بارہ اور چھ برس ہیں۔ مینا کا کہنا ہے کہ وہ انہیں سکول ضرور بھیجے گی۔
افغان صوبہ وردک بھی طالبان کی پرتشدد کارروائیوں سے متاثر ہوا تھا اور یہاں واقع مینا کا گاؤں سالار بھی میدان جنگ بنا تھا۔ سالار گزشتہ دو برسوں سے طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ اس جنگجو گروہ کی بنیادی لڑائی غیر ملکی فوجیوں اور افغان حکومت سے تھی۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اور تشدد کی کارروائیاں تھم گئی ہیں۔
افغانستان ميں کھانے پينے کی اشياء کا بحران
02:07
اس جنگ سے مہاجرت اختیار کرنے والے سالار کے رہائشی بھی واپس لوٹ رہے ہیں۔ انہیں بس ایک فکر لاحق ہے کہ ملک کی معیشت کا کیا ہو گا۔ صوبہ وردک ماضی میں قحط کا شکار رہا ہے جبکہ اس مرتبہ بھی اندیشہ ہے کہ یہاں خشک سالی تباہ کن ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف کابل اور دیگر شہروں میں افغان عوام طالبان سے خوش نہیں۔ انہیں خوف ہے کہ طالبان کے اقتدار میں ان کی شخصی آزادی اور بالخصوص خواتین کے حقوق غصب کر لیے جائیں گے۔ لیکن سالار اور اس جیسے دیگر دیہی علاقوں میں لوگوں کو یہ پروا نہیں کیونکہ وہ تو روٹی ، کپڑا، مکان اور امن چاہتے ہیں۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ افغانستان کے دیہی علاقوں میں طالبان کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے۔ مقامی لوگوں کے خیالات طالبان کے نظریات سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ کئی دیہات میں تو پندرہ اگست کو خوشیاں منائی گئی تھیں اور دیہاتیوں نے طالبان کے اقتدار کا خیر مقدم کیا تھا۔
لیکن پھر بھی گزشتہ بیس برسوں کے دوران افغان باشندوں کی سوچ بدلی ہے۔ بے شک دیہاتی علاقے ہوں، وہاں بھی لوگ اب اپنی بچیوں کو تعلیم دینے چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان نے مقامی آبادی کے اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے سالار میں بچیوں کے لیے ایک ایلمنٹری اسکول چلانے کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن کیا ان لڑکیوں کے لیے صرف ابتدائی تعلیم ہی ہو گی۔
سن دو ہزار سات میں طالبان نے صوبہ وردک میں لڑکیوں کے متعدد اسکولوں کو نذر آتش کر دیا تھا۔ لیکن ایک دہائی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد افغان عوام میں ایک نیا رویہ پیدا ہو چکا ہے۔
سالار کے رہائشی عبدل ہادی خان کا خیال ہے کہ اگر طالبان نے بچیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی تو ان کے خلاف مزاحمت شروع ہو جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے طالبان کو بھی اپنے مؤقف میں نرمی پیدا کرنا ہو گی۔
افغانستان میں ان بدلتے رحجانات کی ایک اہم وجہ اس ملک میں گزشتہ بیس سالوں سے جاری متعدد تعلیمی پروگرامز بھی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار میں جب طالبان پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تھے تو افغانستان میں ایک ملین میں سے ایک لاکھ بچیاں اسکول جاتی تھیں تاہم اب دس ملین میں سے چار ملین بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
ع ب ، ع ح (خبر رساں ادارے)
طالبان کے راج ميں زندگی: داڑھی، برقعہ اور نماز
افغانستان ميں طالبان کی حکومت کے قيام سے ايک طرف تو بين الاقوامی سطح پر سفارت کاری کا بازار گرم ہے تو دوسری جانب ملک کے اندر ايک عام آدمی کی زندگی بالکل تبديل ہو کر رہ گئی ہے۔ آج کے افغانستان ميں زندگی کی جھلکياں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
برقعہ لازم نہيں مگر لازمی
افغانستان ميں فی الحال عورتوں کے ليے برقعہ لازمی قرار نہيں ديا گيا ہے تاہم اکثريتی خواتين نے خوف اور منفی رد عمل کی وجہ برقعہ پہننا شروع کر ديا ہے۔ طالبان سخت گير اسلامی نظريات کے حامل ہيں اور ان کی حکومت ميں آزادانہ يا مغربی طرز کے لباس کا تو تصور تک نہيں۔ تصوير ميں دو خواتين اپنے بچوں کے ہمراہ ايک مارکيٹ ميں پرانے کپڑے خريد رہی ہيں۔
تصویر: Felipe Dana/AP Photo/picture alliance
داڑھی کٹوانے پر پابندی
طالبان نے حکم جاری کيا ہے کہ حجام داڑھياں نہ کاٹيں۔ يہ قانون ابھی صوبہ ہلمند ميں نافذ کر ديا گيا ہے۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ آيا اس پر ملک گير سطح پر عملدرآمد ہو گا۔ سن 1996 سے سن 2001 تک طالبان کے سابقہ دور ميں بھی مردوں کے داڑھياں ترشوانے پر پابندی عائد تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Usyan
سڑکوں اور بازاروں ميں طالبان کا راج
طالبان کی کابل اور ديگر حصوں پر چڑھائی کے فوری بعد افراتفری کا سماں تھا تاہم اب معاملات سنبھل گئے ہيں۔ بازاروں ميں گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے۔ يہ کابل شہر کا پرانا حصہ ہے، جہاں خريداروں اور دکانداروں کا رش لگا رہتا ہے۔ ليکن ساتھ ہی ہر جگہ بندوقيں لٹکائے طالبان بھی پھرتے رہتے ہيں اور اگر کچھ بھی ان کی مرضی کے تحت نہ ہو، تو وہ فوری طور پر مداخلت کرتے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
خواتين کے حقوق کی صورتحال غير واضح
بيوٹی پارلرز کے باہر لگی تصاوير ہوں يا اشتہارات، طالبان کو اس طرح خواتين کی تصاوير بالکل قبول نہيں۔ ملک بھر سے ايسی تصاوير ہٹا يا چھپا دی گئی ہيں۔ افغانستان ميں طالبان کی آمد کے بعد سے خواتين کے حقوق کی صورتحال بالخصوص غير واضح ہے۔ چند مظاہروں کے دوران خواتين پر تشدد بھی کيا گيا۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
بچياں سيکنڈری اسکولوں و يونيورسٹيوں سے غائب
افغان طالبان نے پرائمری اسکولوں ميں تو لڑکيوں کو تعليم کی اجازت دے دی ہے مگر سيکنڈری اسکولوں میں بچياں ابھی تک جانا شروع نہیں ہوئیں ہيں۔ پرائمری اسکولوں ميں بھی لڑکوں اور لڑکيوں کو عليحدہ عليحدہ پردے کے ساتھ بٹھايا جاتا ہے۔ کافی تنقيد کے بعد طالبان نے چند روز قبل بيان جاری کيا تھا کہ سيکنڈری اسکولوں اور يونيورسٹيوں ميں لڑکيوں کی واپسی کے معاملے پر جلد فيصلہ کيا جائے گا۔
تصویر: Felipe Dana/AP Photo/picture alliance
کھيل کے ميدانوں سے بھی لڑکياں غير حاضر
کرکٹ افغانستان ميں بھی مقبول ہے۔ اس تصوير ميں کابل کے چمن ہوزاری پارک ميں بچے کرکٹ کھيل رہے ہيں۔ خواتين کو کسی کھيل ميں شرکت کی اجازت نہيں۔ خواتين کھلاڑی وطن چھوڑ کر ديگر ملکوں ميں پناہ لے چکی ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
بے روزگاری عروج پر
افغانستان کو شديد اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ اس ملک کے ستر فيصد اخراجات بيرونی امداد سے پورے ہوتے تھے۔ یہ اب معطل ہو چکے ہیں۔ ايسے ميں افراط زر مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ يوميہ اجرت پر کام کرنے والے يہ مزدور بيکار بيٹھے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
نماز اور عبادت، زندگی کا اہم حصہ
جمعے کی نماز کا منظر۔ مسلمانوں کے ليے جمعہ اہم دن ہوتا ہے اور جمعے کی نماز کو بھی خصوصی اہميت حاصل ہے۔ اس تصوير ميں بچی بھی دکھائی دے رہی ہے، جو جوتے صاف کر کے روزگار کماتی ہے۔ وہ منتظر ہے کہ نمازی نماز ختم کريں اور اس سے اپنے جوتے صاف کرائيں اور وہ چار پيسے کما سکے۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
عام شہری پريشان، طالبان خوش
عام افغان شہری ايک عجيب کشمکش ميں مبتلا ہے مگر طالبان اکثر لطف اندوز ہوتے دکھائی ديتے ہيں۔ اس تصوير ميں طالبان ايک اسپيڈ بوٹ ميں سیر کر کے خوش ہو رہے ہيں۔