افغانستان میں بچوں کی ہلاکت پر اوباما کو رنج
4 مارچ 2011امریکی صدر اور ان کے افغان ہم منصب حامد کرزئی نے ایک گھنٹے تک ویڈیو ٹیلی فون کے ذریعے اس واقعے کے مختلف پہلووں پر گفتگو کی۔ صدر کرزئی کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کے بعد افغانستان متعین غیر ملکی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس بھی معذرت کا اظہار کرچکے ہیں۔
یہ واقعہ گزشتہ ہفتے کے دوران صوبہ کُنڑ کے درہ ء پیچ میں رونما ہوا تھا۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اوباما نے کہا ہے کہ جنرل پیٹریاس ایسے معاملات کو نہایت سنجیدگی سے لیتے ہیں، ’ صدر اوباما اور صدر کرزئی نے اتفاق ظاہر کیا ہے کہ ایسے واقعات دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگ میں رکاوٹ بنتے ہیں‘۔
پاکستان کی سرحد سے متعلق مشرقی افغان صوبوں میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران شہری ہلاکتوں کے ایسے چار واقعات ہوئے ہیں، جن میں کابل حکومت کے مطابق 80 سے زائد شہریوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ درہ ء پیچ کے واقعے کے بعد جاری کیے گئے ایک بیان میں افغانستان متعین سلامتی کی بین الاقوامی فورس ISAF کا کہنا تھا کہ ان کے ہیلی کاپٹرز کو شدت پسندوں کی موجودگی کا شبہ ہوا، جس کے بعد ان پر حملہ کیا گیا تھا۔ کابل حکومت کے مطابق مارے جانے والے بچے تھے ،جو ایندھن کے لیے لکڑیاں چُن رہے تھے۔
افغانستان میں شہری ہلاکتوں کے واقعات میں بیس فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ گزشتہ سال کے افتتاحی دس ماہ میں 6215 شہری ہلاک ہوئے، جن میں سے بیشتر کی ہلاکت کی ذمہ داری عسکریت پسندوں پر عائد کی جاتی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے افغان عوام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان واقعات کے سبب عوام میں امریکہ مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔ ایک شہری عنایت اللہ نے روئٹرز سے گفتگو میں بتایا، ’ یہ پہلی بار نہیں کہ انہوں نے ہمارے بے گناہ اور غریب شہریوں کو ہلاک کیا ہے، ہم ان کی معذرت کو تسلیم نہیں کرتے‘۔
عنایت اللہ نے سابقہ واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی ہلاکتیں ہوئیں اور معافیاں مانگی گئیں۔ ایک دوسرے شہری حبیب اللہ کا کہنا تھا کہ نیٹو افواج اس طرح کی بمباری سے کسی صورت افغانستان کو کنٹرول نہیں کرسکتی ہیں۔
اوباما اور کرزئی نے افغانستان سے غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلاء کے معاملے پر بھی گفتگو کی۔ افغان صدر کو ٹیلی فون کرنے سے قبل امریکی صدر نے قومی سلامتی سے وابستہ عہدیداروں سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر، سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینیٹا، افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی سفیروں کے ساتھ ساتھ دیگر اعلیٰ فوجی قیادت بھی شریک تھی۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ