افغانستان میں بڑھتے مغرب مخالف جذبات
11 اپریل 2011کابل یونیورسٹی کے پروفیسرعنایت اللہ بلیغ مذہبی اسکالر ہیں۔ کابل کے وسطی علاقے میں قائم سب سے بڑی مسجد میں نماز جمعہ کی امامت بھی وہی کرتے ہیں۔ اپنے خطبے میں وہ لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ اسلام کی بے حرمتی کرنے والے غیرملکیوں کے خلاف جہاد کریں۔
امریکہ میں قرآن کے ایک نسخے کو نذرآتش کرنے کے واقعے کے بعد افغانستان کے عام لوگوں میں یہ تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ زیادہ تر غیرملکی صرف ایک ہی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ہے اسلام کی بے حرمتی کرنے والا گروہ۔
پروفیسر بلیغ نے حضرت علی نامی کابل کی مسجد میں خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئےکہا: ’’مسلمانوں کی اس بدترین توہین کی ذمہ دار بین الاقوامی برادری اور امریکی حکومت ہیں۔ میں اپنے شاگردوں کو بتاتا ہوں کہ ایسے تمام غیرملکیوں کے خلاف جہاد کریں جو ہماری مذہبی اقدار کی توہین کرتے ہیں۔ ہم بہت برداشت کرچکے۔‘‘
امریکہ میں قرآن سوزی کے واقعے کے خلاف افغان دارالحکومت کابل میں ہونے والے مظاہروں نے گوکہ پرتشدد شکل اختیار نہیں کی، تاہم پروفیسر بلیغ کی طرح بہت سے مذہبی رہنماؤں کے خطبے افغانستان میں کام کرنے اور لڑنے والے غیرملکیوں پر تنقید سے بھرے ہوتے ہیں۔
کابل کے شمال مغربی علاقے میں شعلہ بیان مبلغ حبیب اللہ اعصام حاضرین مجلس کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ غیر مسلموں سے تمام تر تعلقات خطرناک ہیں: ’’یہودی اور صلیبی کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔ یہ ہمارے معاشرے اور تہذیب وثقافت کو آلودہ کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ جو ان کی یہاں موجودگی چاہتے ہیں، وہ بزدل مسلمان ہیں۔ خواتین نقاب نہیں لیتیں، مرد فیشن اور دکھاوے کے پیچھے بھاگتے ہیں، یہ صرف غیرملکیوں کی وجہ سے ہے۔‘‘
افغانستان میں موجود چند پشتو اور دری بولنے اورسمجھنے والے غیرملکیوں کے علاوہ مسجدوں کے اسپیکروں سے دیے جانے والے ایسے پیغامات ان لوگوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے جن کی مذمت کی جار ہی ہوتی ہے۔ تاہم بحیثیت مجموعی مغرب کے خلاف جذبات بتدریج برانگیختہ ہورہے ہیں۔ یہ ایسے ہی جذبات کا شاخسانہ تھا جب گزشتہ ہفتے مزار شریف میں قرآن سوزی کے خلاف ہونے والا احتجاج جو ابتدا میں پرامن تھا، پرتشدد شکل اختیار کرگیا اور عوام کے غیض وغضب کے ہاتھوں اقوام متحدہ کے سات کارکن ہلاک ہوگئے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک