1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں بیرونی سرمایہ کاری، بارودی سرنگیں بڑی رکاوٹ

عابد حسین19 اگست 2016

افغانستان میں بارودی سرنگوں کی تلاش کے لیے فنڈنگ میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔ دوسری جانب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مسلح جھڑپوں میں تسلسل نے بارودی سرنگوں کی صفائی کا عمل بھی متاثر کر رکھا ہے۔

ایک افغان علاقے سے دستیاب ہونے والی بارودی سرنگتصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images

افغانستان میں حالیہ ایام میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ بارودی سرنگیں اور زیرزمین نصب شدہ بم یا کھلونا بم ہیں۔ بارودی سرنگوں یا دوسرے بموں کو تلف کرنے کا پروگرام سردست سست ہو گیا ہے اور اِس کی وجہ افغان فوج اور طالبان عسکریت پسندوں کے درمیان جاری مسلح تنازعے میں شدت ہے۔ افغان طالبان نے اپنی مسلح سرگرمیوں میں اضافہ کر کے کابل حکومت کے سردرد کو بڑھا دیا ہے۔ تنازعے میں شدت کی وجہ سے اقتصادی و سماجی سرگرمیوں میں شدید کمی پیدا ہوچکی ہے۔

مختلف افغان علاقوں میں مسلح جھڑپوں کی وجہ سے بارودی سرنگوں کی صفائی کے پروگرام کے لیے بین الاقوامی مالی امداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیرملکی سرمایہ کار بھی افغانستان میں سرمایہ لگانے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ افغانستان کو بارودی سرنگوں سے صاف کرنے کا ٹارگٹ سن 2013 رکھا گیا تھا لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ تقریباً اسی فیصد علاقے بارودی سرنگوں اور دوسرے بموں سے پاک ہو چکے ہیں۔

افغانستان میں بارودی سرنگیں صاف کرنے والے محکمے کا اہلکارتصویر: AP

افغانستان کے بارودی سرنگوں کی صفائی کے قومی ادارے کے سربراہ محمد شفیق یوسفی کا کہنا ہے کہ جتنی تاخیر اِس بارودی مواد کو ختم کرنے میں مزید درکار ہو گی، اتنی زیادہ انسانی جانوں کے ضائع ہونے کا خدشہ موجود رہے گا۔ یوسفی کے مطابق بارودی سرنگوں اور دوسرے بکھرے ہوئے بموں کے پھٹنے سے جہاں انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں وہاں زندہ بچ جانے والے معذوری کا بھی شکار ہو رہے ہیں۔ اُن کے مطابق اِس باعث ملکی اقتصادی ترقی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔

اب بھی افغانستان میں چھ سو مربع کلومیٹر علاقے پر بارودی سرنگوں کے ساتھ ساتھ دوسرا بارودی مواد تلف کرنا باقی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس علاقے میں تین ہزار ایسے معلوم مقامات ہیں، جہاں بارودی سرنگوں کے نصب ہونے کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ اس علاقے میں موجود ایک بڑی آبادی اپنی سرگرمیوں کو انتہائی محدود کیے ہوئے ہے۔ رواں برس اپریل سے جون کے دوران اٹھائیس افراد اِن علاقوں میں بارودی مواد پھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں