1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں تیرہ برسوں میں ایک لاکھ ہلاکتیں

مقبول ملک2 جون 2015

افغانستان میں جنگ سے متعلق ایک نئے مطالعے کے مطابق سن دو ہزار ایک میں وہاں طالبان انتظامیہ کے خلاف امریکی قیادت میں اتحادی فوجی مداخلت کے بعد سے اب تک قریب ایک لاکھ انسان مارے جا چکے ہیں اور اتنے ہی زخمی بھی ہوئے ہیں۔

Afghanistan Kabul Bombenanschlag
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

افغان دارالحکومت کابل سے منگل دو جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق یہ تحقیقی مطالعہ امریکا کی براؤن یونیورسٹی کے بین الاقوامی امور کے واٹسن انسٹیٹیوٹ کی طرف سے مکمل کیا گیا ہے اور اسے Costs of War یا’ جنگ کی قیمتیں‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس مطالعے میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ 2001ء میں افغانستان میں اتحادی فوجی مداخلت سے لے کر 2014ء کے آخر میں ہندو کش کی اس ریاست سے اتحادی جنگی دستوں کے انخلاء تک کے عرصے میں افغانستان اور اس کے ہمسایہ ملک پاکستان میں جنگی حالات کے دوران کتنے انسان ہلاک، زخمی یا بے گھر ہوئے۔

واٹسن انسٹیٹیوٹ کے اس مطالعے کے نتائج کے مطابق اس عرصے کے دوران پاکستان اور افغانستان میں شہری اور فوجی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد قریب ایک لاکھ 49 ہزار رہی جبکہ ایک لاکھ 62 ہزار انسان شدید زخمی ہوئے۔ اس دوران صرف افغانستان میں انسانی ہلاکتوں کی تعداد قریب ایک لاکھ رہی اور اتنے ہی انسان زخمی بھی ہوئے۔

اس ریسرچ رپورٹ کی مصنفہ اور امریکا کی بوسٹن یونیورسٹی کی سیاسیات کی پروفیسر نَیٹا کرافورڈ کے مطابق اس مطالعے کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ جنگ کے دوران خاص طور پر افغانستان میں ہر سال ہونے والی انسانی ہلاکتوں میں حالیہ برسوں کے دوران اضافہ ہی ہوا ہے۔ نَیٹا کرافورڈ نے کہا، ’’افغانستان میں جنگ اب مسلسل خراب تر شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں سال رواں کے پہلے چار ماہ کے دوران 2014ء کے پہلے چار ماہ کے مقابلے میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں 16 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور اس عرصے میں افغانستان میں 974 شہری مارے گئے۔

تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

رپورٹ کے مطابق اس تحقیقی مطالعے کے لیے افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن UNAMA اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو بنیاد بنایا گیا لیکن اس حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ افغانستان میں ایک طرف اگر فوجی ہلاکتوں کی تصدیق مقابلتاﹰ آسان ہے تو دوسری طرف شہری ہلاکتوں کی تصدیق اور ان معلومات کے ذرائع کی جانچ پڑتال کافی مشکل کام ہے۔

نَیٹا کرافورڈ کے بقول افغانستان میں شہری ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے 2007ء کے بعد کا عرصہ خاص طور پر ہلاکت خیز رہا۔ اس دوران وہاں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے 2009ء اور 2014ء کے درمیانی عرصے میں سترہ ہزار سات سو سے زائد شہری ہلاکتیں ریکارڈ کیں، جن میں سے اکثریت طالبان کے حملوں کا نشانہ بنی۔

اس ریسرچ اسٹڈی کے نتائج کے مطابق افغانستان میں تیرہ سالہ جنگ کے براہ راست نتیجے کے طور پر کم از کم چھبیس ہزار دو سو ستر افغان شہری ہلاک ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد تیس ہزار کے قریب رہی۔ پروفیسر نَیٹا کرافورڈ کے مطابق آج افغانستان میں طالبان عسکریت پسند اپنے حملوں کے وقت اس بات میں کوئی تفریق نہیں کرتے کہ وہ افغان سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں یا عام شہریوں کو۔ اسی دوران وہاں شہری ہلاکتوں میں کمی کا 2008ء میں شروع ہونے والا رجحان اب دوبارہ کافی زیادہ ہو چکا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں