افغانستان میں جب تک ضروری ہے فوج موجود رہےگی: نیٹو
17 نومبر 2020
نیٹو کے سربراہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان سے تیزی سے امریکی فوجی انخلاء کے لیے متنبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ جلد بازی ہوگی۔ امریکی انتظامیہ نے کرسمس تک اپنی فوج کو واپس بلانے کی بات کہی تھی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک امریکی اعلی افسر کے حوالے سے خبر دی ہے کہ صدر ٹرمپ کی اس منصوبے سے کہ کرسمس تک افغانستان سے امریکی فوجیوں کا کسی طرح انخلاء ہوجانا چاہیے، نیٹو کے دیگر اتحادیوں میں افرا تفری کا ماحول ہے اور اس پر ایک دوسرے سے صلاح و مشورے کا عمل جاری ہے۔
اس دوران برسلز میں نیٹو کی ترجمان اوانا لنگسکیو کا کہنا ہے کہ افغانستان کے تنازعے کے حوالے سے نٹیو اتحاد کے موقف میں ابھی تک ایسی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ نیٹو کی ویب سائٹ کے مطابق افغانستان میں 38 ممالک پر مشتمل اتحاد نیٹو کے تقریباً 0 1600 فوجی موجود ہیں، جس میں سے نصف تعداد امریکی فوجیوں کی ہے۔
لیکن نیٹو کی ترجمان نے پیر کو اپنے بیان میں یہ تعداد 12 ہزار سے بھی کم بتائی۔ انہوں نے نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ''ہم اپنی موجودگی برقرار رکھیں گے۔ نیٹو کا کوئی بھی اتحادی بلا ضرورت وہاں رکنا نہیں چاہتا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم نے اتنی قربانیاں دیکر جو کامیابی حاصل کی ہے اسے کی پاسبانی بھی چاہتے ہیں۔''
نیٹو کا صلاح و مشورہ جاری رہے گا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں وزیر دفاع مارک ایسپر کو برخاست کر کے کرس ملر کو اپنا کارگزار وزیر دفاع متعین کیا تھا اور نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے ان سے بھی بات چیت کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کرس ملر نے صدر ٹرمپ سے شام اور افغانستان سے مکمل انخلا کے بارے میں بات چیت کی کوشش کی تھی۔
جرمنی میں امریکی فوج کی تاریخ
امریکی فوج تقریباﹰ 75 سالوں سے جرمنی میں موجود ہے۔ یہ فوج دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں فاتح کے طور پر داخل ہوئی اور کچھ عرصے میں ہی جرمنی کی اتحادی بن گئی۔ لیکن یہ باہمی تعلق ہمیشہ ہموار نہیں رہا ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
رمشٹائن ملٹری ائیربیس کا اہم دورہ
جرمنی میں تقریباﹰ 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
سوویت یونین کا کردار
جرمنی میں امریکی فوج دوسری جنگ عظیم کے بعد آنا شروع ہوئی تھی۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے جرمنی کو نازیوں سے آزاد کروایا تھا۔ تاہم اس وقت اس کا اتحادی ملک سوویت یونین جلد ہی دشمن بن گیا تھا۔ اس تصویر میں تقسیم شدہ برلن میں امریکی فوج اورسابقہ سوویت یونین کے ٹینک ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایلوس پریسلے
امریکی فوجیوں نے جرمنی کو امریکی ثقافت سے بھی روشناس کروایا۔ کنگ آف ’روک ن رول‘ ایلوس پریسلے نے ایک امریکی فوجی کے طور پر سن 1958 میں جرمنی میں اپنی فوجی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ اس تصویر میں پریسلے یہ اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Heidtmann
جرمنی اب اپنا گھر
پچھلے کچھ برسوں سے امریکی فوج جرمن سر زمین پر مستقل قیام کیے ہوئے ہے۔ امریکی اڈوں کے گردونواح میں امریکی فوج اور ان کے خاندانوں کے لیے کئی رہائشی مقامات تعمیر کیے گئے ہیں۔ الگ تھلگ رہائش کا یہ نظام امریکی فوجیوں کا جرمنی میں مکمل انضمام میں دشواری کا سبب بھی بنتا ہے۔ سن 2019 میں امریکی فوج نے 17،000 امریکی سویلین شہریوں کو جرمنی میں ملازمت پر رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
امریکا اور جرمن خاندانوں کا تعلق
الگ رہائشی علاقوں کے باوجود، جرمن اور امریکی خاندانوں میں رابطہ رہا ہے۔ فوج کی تعیناتی کے ابتدائی برسوں میں برلن میں موسم گرما اور سرما میں پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ امریکی فوج مقامی بچوں کے لیے کرسمس پارٹی کا اہتمام بھی کرتی تھی اور ہر سال جرمنی اور امریکا دوستی کے ہفتہ وار جشن منائے جاتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران وفاقی جمہوریہ جرمنی ایک اہم اسٹریٹیجک مقام بن گیا تھا۔ سن 1969 میں نیٹو ’مینوور ریفورجر ون‘ امریکی اور جرمن فوج کے زیر اہتمام بہت سی مشترکہ جنگی مشقون میں سے ایک تھی۔ اس میں دشمن سوویت یونین اور مشرقی جرمنی سمیت وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک تھے۔
تصویر: picture-alliance/K. Schnörrer
جوہری میزائل پر تنازعہ
سن 1983 میں متلانگن میں امریکی اڈے پر پریشنگ 2 راکٹ لائے گئے تھے۔ جوہری وار ہیڈس سے لیس شدہ یہ راکٹس ایک سیاسی مسئلہ بن گئے تھے۔ امن کے خواہاں سرگرم کارکنان ان میزائلوں کے خلاف تھے۔ ان کے احتجاجی مظاہروں میں مشہور شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راستے جدا
تقریباﹰ20 سال بعد یعنی 2003ء میں امریکی صدر جارج بش نےعراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ جنگ کی وجہ عراق کا وہ مبینہ پروگرام تھا، جس کے تحت وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہے تھے۔ اس دور کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروڈر نے جرمنی کو اس جنگ سے دور رکھا۔ اور برلن اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpa_pool/A. Altwein
جرمنی پھر بھی اہم
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی سے اپنے بارہزار فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر قائم رہتے بھی ہیں تو بھی جرمنی امریکا کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک ملک رہے گا۔ رمشٹائن کا اڈہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ میں امریکی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں سے ہی متنازعہ ڈرون مشنز افریقہ اور ایشیا میں پرواز کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
9 تصاویر1 | 9
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی ایک قرار داد کے تحت 2015 میں افغانستان میں 'ریزولوٹ سپورٹ' کے تحت نیٹیو افواج کو تعینات کیا گیا تھا۔ گرچہ اس میں نصف فوجی امریکی ہیں تاہم نصف کا تعلق دیگر مختلف ممالک سے ہے اس لیے افغانستان سے مکمل انخلاء کا عمل قدرے پیچیدہ ہے۔
نیٹو کی ترجمان اوانا لنگسکیو کا کہنا ہے کہ نیٹو کے اتحادی افواج کا انحصار امریکی لاجیسٹکس پر رہا ہے اور اس مشن کے حوالے سے، ''زمینی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم آہنگی سے صلاح و مشورے کا عمل جاری رہیگا۔''
اشتہار
کوارڈینیشن پر بات چیت
ادھر امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون کا کہنا ہے کہ کرس ملر اور اسٹولٹن برگ نے، ''افغانستان اور عراق میں نیٹو مشنوں کی حمایت میں ہم آہنگی کی مسلسل اہمیت پر تبادلہ خیال کیا ہے۔''حالیہ مہینوں میں دیکھا گیا ہے کہ افغانستان میں تشدد کا سلسلہ جاری ہے جبکہ قطر میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں کوئی خاص پیش رفت بھی نہیں ہوئی ہے۔
گزشتہ ماہ اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ افغانستان میں جو بہادر امریکی فوجی اپنی خدمات انجام دیتے رہے ہیں ان میں جو تھوڑے بہت وہاں بچے ہیں وہ بھی کی کرسمس تک اپنے گھر واپس ہوجائیں گے۔
موجودہ کارگزار امریکی وزیر دفاع کرس ملر نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ جو امریکی فوجی بیرونی ممالک میں تعینات ہیں وہ اپنے گھر واپس آجائیں۔ حالانکہ انہوں نے اپنے بیان میں اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کیا کہ کب تک ان کی واپسی ہوگی۔