افغانستان میں جرمن دستوں کے درجنوں سابق مقامی معاونین ہلاک
9 اکتوبر 2022
افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وہاں ماضی میں جرمن فوجی دستوں کے لیے کام کرنے والے درجنوں مقامی کارکن ہلاک ہو چکے ہیں۔ برلن حکومت ان کی جان کو لاحق خطرات کے سبب انہیں افغانستان سے نکالنا چاہتی تھی۔
اشتہار
جرمن میڈیا کے مطابق افغانستان میں اگست 2021ء میں عسکریت پسند طالبان کے اقتدار میں آ جانے کے بعد سے اپنی جرمنی منتقلی کے منتظر افراد میں سے بتیس کی موت واقع ہو چکی ہے۔ انہوں نے افغانستان میں نیٹو مشن کے دوران جرمن مسلح افواج کی مقامی کارکنوں کے طور پر مدد کی تھی یا پھر اپنے ہی ملک میں ان کو کسی اور وجہ سے جان کے خطرات لاحق تھے۔
وفاقی جرمن حکومت کی جانب سے یہ معلومات جرمنی کی لیفٹ پارٹی کی رکن پارلیمنٹ کلارا بُنگر کے ایک سوال کے جواب میں عام کی گئیں۔
اموات کیسے ہوئیں؟
سوال کے جواب میں فراہم کی گئی فہرست کے مطابق مذکورہ افغان شہریوں میں سے پندرہ کی موت قدرتی یا حادثات کے نتیجے میں ہوئی، نو افراد پرتشدد واقعات میں ہلاک ہوئے، جن میں ایک ایسا سابق مقامی معاون کارکن بھی شامل تھا جو دہشت گرد گروہ'اسلامک اسٹیٹ‘ کی جانب سے ایک مسجد پر کیے گئے ایک حملے میں مارا گیا تھا۔ اس کے علاوہ جرمن دستوں کے ایک اور سابق مقامی مددگار نے خودکشی بھی کر لی۔
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔
تصویر: picture alliance / newscom
11 تصاویر1 | 11
جرمن حکومت کی طرف سے فراہم کردہ معلومات میں بتایا گیا کہ سات افراد کی اموات کی وجہ ابھی تک واضح نہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کسی بھی ہلاکت کا جرمن افواج کی مدد کرنے جیسی سرگرمیوں سے بظاہر کوئی تعلق نہیں ہے۔
وفاقی جرمن فوج افغانستان میں امریکی قیادت میں بیس سالہ فوجی مشن کا حصہ رہی تھی، جو گزشتہ برس جولائی میں ایک غیرمنظم طریقے سے ختم کیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ پندرہ مہینوں کے دوران 36 ہزار سے زیادہ سابق مقامی امدادی عملے اور دیگر خطرات سے دوچار افغانوں کو، جن میں صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن بھی شامل ہیں، ان کے خاندانوں کے منظور شدہ افراد کے ساتھ ملک سے نکالنے کا انتظام کیا ہے۔ برلن حکومت کے مطابق ایسے دو تہائی سے زیادہ افغان شہری پاکستان کے راستے جرمنی پہنچائے گئے۔
'جرمن حکومت کی ناکامی‘
دوسری جانب جرمنی کی بائیں بازو کی سیاسی جماعت دی لنکے کی رکن پارلیمان کلارا بُنگر نے جرمن جریدے ڈئر اشپیگل سے گفتگو میں اس صورتحال کو 'ایک تباہی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جرمن حکومت افغانستان سے خطرات سے دوچار افراد کو بروقت جرمنی لانے میں 'مجرمانہ حد تک‘ ناکام رہی ہے۔
افغانستان دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بن سکتا ہے
افغانستان دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بننے کے دہانے پر ہے۔ گزشتہ اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دنیا بھر نے افغانستان کی امداد بند کر دی تھی۔ افغانستان کے حالیہ بحران سے متعلق چند حقائق اس پکچر گیلری میں
تصویر: Ali Khara/REUTERS
تئیس ملین افغان بھوک کا شکار
عالمی ادارہ برائے خوراک کے مطابق چالیس ملین آبادی میں سے 23 ملین شہری شدید بھوک کا شکار ہیں۔ ان میں نو ملین قحط کے بہت بہت قریب ہیں۔
ملک کی آبادی کا قریب بیس فیصد خشک سالی کا شکار ہے۔ اس ملک کی ستر فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے اور ان کی آمدنی کا 85 فیصد حصہ زراعت سے حاصل ہوتا ہے۔
تصویر: Rahmat Alizadah/Xinhua/imago
اندرونی نقل مکانی
پینتیس لاکھ افغان شہری تشدد، خشک سالی اور دیگر آفتوں کے باعث اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ صرف گزشتہ برس ہی سات لاکھ افغان شہریوں نے اپنا گھر چھوڑا۔
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance
غربت میں اضافہ
اقوام متحدہ کے مطابق اس سال کے وسط تک اس ملک کی 97 فیصد آبادی غربت کا شکار ہو سکتی ہے۔ طالبان کےا قتدار سے قبل نصف آبادی غربت کا شکار تھی۔ 2020 میں فی کس آمدنی 508 ڈالر تھی۔ اس سال فی کس آمدنی 350 ڈالر تک گر سکتی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق کم از کم دو ارب ڈالر کی امداد کے ذریعے ملکی آبادی کو شدید غربت سے غربت کی عالمی طے شدہ سطح پر تک لایا جا سکتا ہے۔
تصویر: HOSHANG HASHIMI/AFP
بین الاقوامی امداد
طالبان کے اقتدار سے قبل ملکی آمدنی کا چالیس فیصد بین الاقوامی امداد سے حاصل ہوتا تھا۔ اس امداد کے ذریعے حکومت کے اخراجات کا 75 فیصد پورا کیا جاتا تھا۔ ورلڈ بینک کے مطابق سالانہ ترقیاتی امداد، جو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد معطل کر دی گئی، سن 2019 میں 4.2 ارب ڈالر تھی۔ یہ امداد سن 2011 میں 6.7 ارب ڈالر سے زیادہ تھی۔
تصویر: Ali Khara/REUTERS
خواتین کا کردار
خواتین کی ملازمت پر پابندی جیسا کہ طالبان نے کیا ہے وہ معیشت کو 600 ملین ڈالر سے لے کر ایک ارب ڈالر تک کا نقصان پہنچا سکتی ہے۔
تصویر: Haroon Sabawoon/AA/picture alliance
حالیہ امداد
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انسانی امداد کا ایک چھوٹا سا حصہ ابھی بھی اس ملک کو دیا جارہا ہے۔ 2021 میں افغانستان کو 1.72 ارب ڈالر کی امداد ملی۔ ب ج، ا ا (تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن)
تصویر: HOSHANG HASHIMI/AFP/Getty Images
8 تصاویر1 | 8
انہوں نے جرمنی کی نئی مخلوط حکومت پر کم از کم ایسے مقامی افراد کو محفوظ طریقے سے نہ لانے پر تنقید کی جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ جرمنی آ سکتے ہیں۔
سن 2021 میں افغانستان سے نیٹو کی زیر قیادت فوجیوں کے انخلا کو بڑے پیمانے پر افراتفری کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ طالبان حکام ماضی میں جرمن دستوں سمیت دیگر غیر ملکی افواج کی مدد کرنے والے مقامی کارکنوں کو 'غداروں‘ کے طور پر دیکھتے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ایسے افراد کو زندگی کے مسلسل خطرات لاحق ہیں۔